Column

یوم یکجہتی کشمیر اور فرضی جھڑپوں میں شہادتیں ….. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر …..
دنیا بھر میں پانچ فروری مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح آج بھی پاکستان سمیت پوری دنیا میں کشمیریوں کی لازوال قربانیوں اور تحریک آزادی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ریلیوں، جلسوں، سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے پانچ فروری کو عام تعطیل کا اعلان کیا اور ملک بھر میں اِس دن کو بھرپور انداز میں منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِسی طرح ملک بھر کی سیاسی، مذہبی، کشمیری و سماجی تنظیمیں بھی بڑے پروگرام منعقد کریں گی اور کشمیری قوم سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔ 5فروری وہ دن ہے جب پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں ایک خاص ماحول دکھائی دیتا ہے۔مظلوم کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرنا اچھی بات ہے لیکن اِس سلسلہ کو صرف ایک دن تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اِس لیے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے منشور میں مسئلہ کشمیر کو اولین حیثیت حاصل ہونی چاہیے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ۔ چند ایک مذہبی اور کشمیری جماعتیں ہیں جو عوام میں جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہیں اور کشمیریوںکو بھی اِس سے حوصلہ ملتا ہے کہ حکمرانوں کی مجبوریاں ہوسکتی ہیں مگر غیور پاکستانی قوم اِن کے ساتھ کھڑی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ نو لاکھ بھارتی فوج آئے دن نت نئے مظالم ڈھانے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میںبستیوں کا محاصرہ کر کے نہتے مسلمانوں کا خون بہانا معمول بن چکا ہے۔ کشمیری تاجروں کا کاروبار سازش کے تحت برباد کیا جارہا ہے۔ ہندوستانی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے پہلے حریت لیڈروں کو حراست میں لیا گیا، ان پر پاکستان سے مبینہ فنڈنگ کے الزاما ت لگا کر جیلوں میں ڈالا گیا، ان کیخلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر مبنی چارج شیٹ عدالتوں میں پیش کی گئی اور اب تحریک آزادی میں حصہ لینے والے طلبا، تاجر اور وکلاءرہنماﺅں کو بھی قیدو بند کی صعوبتوں کا شکار کیا جارہا ہے۔بھارتی جیلوں میں کشمیری لیڈروں سے ناروا سلوک معمول بن چکا ہے ،محمد یٰسین ملک اور سیدہ آسیہ اندرابی سمیت دیگر لیڈروں کو شدید بیماری کے باوجود طبی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں اور نہ ہی اِن کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بھارتی فوج محاصروں کے دوران جہاں لوگوں کے گھروں میں گھس کر قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرتی ہے اور اِن کی جائیدادیں و املاک برباد کرتی ہے، وہیں خواتین سے دست درازی اور بداخلاقی کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ سرگرم کشمیری نوجوانوں کو اِن کی رہائش گاہوں سے زبردستی اٹھا کر محض ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کے لیے فرضی جھڑپوں میں شہید کیا جارہا ہے۔ ماضی میں ہندوستانی فوجی افسروں کی طرف سے جنگلوں میں ایسی کاروائیاں کی جاتی تھیں لیکن اَب یہ سلسلہ کشمیر کے گلی کوچوں میں عام ہو چکا ہے۔یہ ہندوستانی تاریخ کا شرمناک باب ہے کہ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل(ر) بکرم سنگھ سمیت کئی فوجی کمانڈر وں نے فرضی جھڑپوں میں نہتے کشمیریوں کو شہید کر کے تمغے وصول کئے اور اِس حوالے سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کئی مرتبہ رپورٹس بھی شائع ہو چکی ہیں۔ راجپوت رجمنٹ کے سابق کمانڈنگ آفیسر سمیت چھ اہلکاروں پر مژھل فرضی جھڑپ اور حراستی قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا دینے کی بھی سفارشات پیش کی گئیں تاہم یہ سب کچھ محض دکھاوا تھا۔ اِس سے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی کہ مقبوضہ کشمیر میں اگر کوئی بھارتی فوجی ناحق قتل کرتا ہے تو اِنہیں بھی سزا سنائی جاتی ہے مگر حقیقت میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔مژھل فرضی جھڑپ میں ایک طرف ہندوستانی فوجی عدالت نے یہ سزا سنائی تو دوسری جانب بھارتی فوجی افسر اپنے عہدوں پر بھی تعینات رہے اور پھر کچھ عرصہ بعد انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔ دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی افسروں کی جانب سے ترقیاں اور تمغے حاصل کرنے کے لیے نہتے کشمیریوں کا قتل عام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل (ر) بکرم سنگھ نے یکم مارچ 2001ءمیں اسلام آباد( اننت ناگ) کے علاقہ میں مبینہ طور پر بھارتی فوج اور کشمیری مجاہدین کے مابین خونریز جھڑپ کا جھوٹا دعویٰ کیا جس میں جنرل(ر) بکرم سنگھ نے بھی ”حصہ“لیا اور خود بھی”زخمی “ ہوئے۔ اِس جھڑپ میں متین چاچا نامی ایک معروف پاکستانی اعلیٰ کمانڈراور پانچ دیگر سرگرم حریت پسندوں کی شہادت کاکہا گیا تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستانی کمانڈر اور پانچوں سرگرم کشمیری مقامی نوجوان تھے جنہیں زبردستی اغواءکر کے محض ترقیوں و تمغوں کے حصول کے لیے فرضی جھڑپ کا ڈرامہ رچایا گیا تھا۔
جنگلا ت منڈی کے نام سے معروف ا ِس فرضی جھڑپ میں خودساختہ زخمی جنرل(ر) بکرم سنگھ کو اعلیٰ فوجی اعزاز اور انعام و کرام سے نوازاگیا۔ بعد ازاں جب وہ شمالی کمان کے سربراہ بنے اور آرمی چیف بننے کی دوڑ میں شامل ہوئے تو پاکستانی کمانڈر قرار دیکر شہید کیے گئے کشمیری نوجوان کی والدہ اور بہن نے ریاستی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے شہید نوجوان کی قبر کشائی کی درخواست کی۔اِس دوران جنرل بکرم سنگھ ابھی آرمی چیف نہیں بنے تھے کہ وہ ایک حساس تنازعہ میں گھِر گئے۔
اِس کیس کی عالمی میڈیا میں بھی بازگشت سنائی دی کہ جسے پاکستانی کمانڈ ر کہا گیا تھا وہ کپواڑہ کا ایک مزدور پیشہ نوجوان تھا۔اِس موقع پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے اور جنرل(ر) بکرم سنگھ کو فوجی سربراہ بنائے جانے کی سخت مخالفت کی تاہم یہ سب کچھ بے سود رہا۔ جنرل (ر)بکرم سنگھ کی طرح اِن کے بعد بننے والے بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ پر بھی نہتے کشمیریوںکا خون بہانے کے الزامات تھے یعنی کشمیر میں فرضی جھڑپوں اور شہادتوں کے واقعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ابھی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فرضی جھڑپوں میں ایک درجن سے زائد کشمیری نوجوانوں کو شہیدو زخمی کیا گیا جس پر پوری کشمیری قوم سراپا احتجاج ہے۔ مقبوضہ کشمیر میںاِن دنوں ہر شہر اور علاقہ میں ایسے واقعات پیش آرہے ہیں اور قتل و غارت گری کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہامگر بین الاقوامی دنیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروںنے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ہم صرف پچھلے ایک ماہ کا ہی جائزہ لیں تو درجنوں کشمیریوں کو شہید کیا گیا اور متعدد گھروں اور دوکانوں کو بارود سے اڑایا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کی صنعتی و زرعی اراضی زبردستی قبضے میں لے کر غیر کشمیریوں کے حوالے کی جارہی ہے اور سازش کے تحت وادی کشمیر میں بھی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
پانچ اگست کے متنازعہ فیصلے کے بعد سے کشمیریوں کا قتل و خون بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ مظلوم کشمیری مسلمان پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اوراِن کی اہل پاکستان سے محبت میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں اور اپنی گھڑیاں پاکستانی وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں، عیدین کا مسئلہ ہو تو اِن کی نگاہیں پاکستانی رویتِ ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرف ہوتی ہیں۔یوم پاکستان ہو یا یوم آزادی ہر موقع پر کشمیر کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستانی قوم سمیت پوری مسلم دنیا اِس بات کا عہد کرے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی ہر ممکن مددوحمایت کی جائے گی اور اِنہیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑاجائے گا۔بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کر تے ہوئے جب تک کشمیریوں کو یو این کی قراردادوں کے مطابق اِن کا حق خودارادیت نہیں دلوایا جاتا مقبوضہ کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں شہادتوں اورناحق خون بہانے کا سلسلہ ختم ہونا ممکن نہیں ۔ کشمیریوں کے خون سے خون ملاناہی حقیقت میں مظلوم کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button