Column

کمزور اپوزیشن

امتیاز احمد شاد ……

اقتدار کا سادہ الفاظ میں مطلب ہے طاقت اور اختیار۔ اقتدار کو عام زبان میں لوگ ایک نشہ بھی سمجھتے ہیں۔ یقین کیجئے کہ جب کسی انسان کو یہ نشہ لگ جاتا ہے تو پھر ساری زندگی یہ نشہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ طاقت بھی جب انسان کو اقتدار کی وجہ سے ملتی ہے تو وہ اِس کا ہر اچھے اور برے کام کرنے میں استعمال کرتا ہے، لیکن یہ سب چیزیں عارضی ہوتی ہیں۔ جو بھی اقتدار میں آتا ہے اِس کو ایک دن لازمی واپس جانا ہوتا ہے، جو سورج صبح طلوع ہوتا ہے وہ لازماً شام کو غروب ہوتا ہے ۔ یہ قدرت کا نظام ہے جس کے ذریعے سے وہ کائنات کو برسوں سے چلا رہا ہے۔ آپ ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں،

اقتدار ہمیشہ کسی کا نہیں رہا، جو اقتدار میں آیا وہ ایک خاص وقت کے بعد اقتدار سے چلا گیا۔ لیکن کچھ لوگوں کا اچھے کاموں کی وجہ سے نام ہمیشہ کے لیے زندہ رہا ہے، ہمیشہ کے لیے اقتدار اِن کے پاس بھی نہیں رہا۔ ہمیشہ وہ لوگ تاریخ میں اَمر ہوتے ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ملک اور اپنی قوم کی ترقی کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا سیاہ باب بن جاتے ہیں جو اقتدار کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اپنے خاندان کو ترقی دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اپنے ملک اور قوم کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچتے۔

آج اقتدار عمران خان کے پاس ہے جو چند سال پہلے کسی اور کے پاس تھا اور اِس سے پہلے کسی اور کے پاس۔مگر آج وہ سب جنہوں نے دہائیوں حکومت کی، اپوزیشن میں ہیںاور وقت نے ایسا انتقام لیا کہ بطو ر اپوزیشن بھی عوام اِن پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔شاید یہی وجہ ہے وزیراعظم عمران خان کمزور اپوزیشن کو ہر موقع پر چیلنج کرتے ہیں۔ یہ چوتھا سال ہے عوامی مسائل حل کرنے میں ناکامی کے باوجود حزب اختلاف پی ٹی آئی کے لیے مسائل پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے اپوزیشن مخصوص اور مختصر وقت کے لیے متحد ہوتی ہے اور اچانک ایک دوسرے سے راہیں جدا کر لیتی ہے۔حکومت گرانے کا دعوی اپنی جگہ مگر یہ سچ ہے کہ حکومت تو اپنی جگہ موجود ہے لیکن اپوزیشن تتر بتر ہو چکی ہے۔ نواز شریف بیرون ملک ہیں، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز ایک طرف ہیں جبکہ مریم نواز اپنا ایک گروپ بنائے کام کر رہی ہیں۔ آصف علی زرداری بوقت ضرورت باہر آتے ہیں اِنہیں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ عام آدمی کس حال میں ہے یا ملک کن مسائل سے دوچار ہے۔ وہ اپنے اہداف کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو کہیں سے اشارہ نہیں مل رہا۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت جب چاہتی ہے بل پاس کروا لیتی ہے۔ اِس منقسم اپوزیشن کو وزیراعظم عمران خان نے آئینہ دکھایا ہے کہ اگر اپوزیشن نے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی تو وہ اِن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوں گے۔

اِس بیان کے بعد اب اپوزیشن کو ہمت کرنی چاہیے تھی اگر واقعی حزب اختلاف عام آدمی کا درد رکھتی اور سمجھتی ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے تو پھر بیانات کے بجائے عملی کام کا مظاہرہ کرتی مگر حسب روایت سب پر خاموشی کے بادل چھا گئے۔ یہ بات درست سہی کہ وزیر اعظم عمران خان ایک خوش قسمت انسان ہیں ، اپنی نیم سیاسی اور اب مکمل سیاسی زندگی میں اِن کی خوش قسمتی کی انتہاءنہیں، مگر یہ خوشی زیادہ دیر تک رہنا مشکل ہے۔اپوزیشن بھلے کمزور سہی مگر مہنگائی اور بے روزگاری کی ستائی عوام جب سڑکوں پر آئے گی تو اپوزیشن یقینی بات ہے اپنا کردار ادا کرے گی۔اِس وقت جب اِن کے خلاف اپوزیشن اٹھ کھڑی ہوگی تو یقینی بات ہے حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کی کارکردگی اپنی جگہ مگرابھی تک اپوزیشن نے عوام کو بے وقوف بنانے کے علاوہ اگر کچھ کیا ہے تو سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی پارٹی کی کامیابی اور تازہ ترین بجٹ اجلاس میں حکومتی کارکردگی کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرنے کے بعد بجٹ کو متفقہ طور پر منظور کروانے کا سہرا اِس کے سر ہے۔ اِس اپوزیشن کے ہوتے ہوئے اگر وزیر اعظم کو خوش قسمت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اپوزیشن کی کوئی پارٹی بھی ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ نظر نہیں آتی مگر حکومت کو جب اپوزیشن کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اپوزیشن پہلی صفوں میں موجود ہوتی ہے۔آپس کی نااتفاقی کہیں یا اپنے اپنے مفادات اِس کی وجہ ہیںکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیںابھی تک بیان بازی کے علاوہ حکومت کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنانے سے قاصر رہی ہیں اور اِس وقت بھی ان کی آپس میں دوستی کا یہ حال ہے کہ وہ کسی ایک جگہ پر اکٹھا بیٹھنا بھی پسند نہیں کر رہے، کجا یہ کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک برپا کرنے کا سوچ بھی سکیں۔

مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کو ملانے کے لیے اپنی بھر پور کوششیں کر رہے ہیں ، اگرچہ انہیں ابھی تک کہیں سے بھی سبز جھنڈی دکھائی نہیں دی لیکن وہ دھیمی رفتار سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جو تھوڑی بہت جان نظر آرہی ہے وہ بلاول کے مرہون منت ہے اور سب سے بڑھ کر عمران خان کی اصل اپوزیشن نواز لیگ کی مہربانی سے بلاول اپنی آواز پاکستان کے عوام تک پہنچا رہے ہیں کیونکہ نواز لیگی قیادت نے چپ کا روز رکھ لیا ہے۔ نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف لندن میں ’خود ساختہ جلا وطنی‘ کے دن گزار رہے ہیں اور پر امید ہیں کہ ان کی سیاسی خاموشی اِن کو فائدہ پہنچائے گی اِس لیے وہ خود بھی چپ ہیں اور پاکستان میں اِن کی سیاسی جان نشین مریم نواز بھی زبان بندی پر سختی سے کاربند ہیں۔ اگرچہ بے چاری عوام مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہے اِس کے باوجودعوام کو اپوزیشن پر یقین نہیں۔فی الحال عمران خان کی حکومت کوکمزور اور بکھری ہوئی اپوزیشن سے توکوئی خطرہ نہیں ہے اور اپوزیشن کی جانب سے ”ستے خیراں“ ہیں البتہ اگر کوئی خطرہ درپیش ہے تو اِن کی اپنی جماعت کے اندر سے ہے جس کے لیے انہیں اپنا انداز حکمرانی درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان آخری سال کو انتہائی جارحانہ انداز سے گزارنا چاہتے ہیں۔بطور کرکٹ مین ان کے ذہن میں ہے کہ آخری گیند تک پریشر نہیں لینا،مگر یہ سیاست کا میدان ہے ۔اِن کے قریبی لوگ اِن سے ایسی غلطیاں کروا رہے ہیں جن کا کرسی سے اُترنے کے بعد اِنہیں حساب دینا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button