تازہ ترینخبریںپاکستان

تعلیمی اداروں، میڈیا میں سعادت حسن منٹو کی تحریروں پر پابندی کا نوٹیفکیشن؟ اصل حقیقت سامنے آ گئی

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک نوٹیفکیشن تیزی سے وائرل ہوا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ حکومتِ پاکستان نے اردو ادب کے مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی تحریروں کو "فحش” قرار دے کر ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق، تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ منٹو کی کہانیوں کو اپنے نصاب، کتب خانوں اور ریڈنگ لسٹوں سے فوری طور پر نکال دیں، جب کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو بھی ان کے اقتباسات یا کسی قسم کی ترویج سے روک دیا گیا تھا۔ مزید برآں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور آن لائن بُک سیلرز کو بھی ان کے کام کو ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔

یہ "نوٹیفکیشن” وزارتِ اطلاعات و نشریات (شعبہ قومی ورثہ و ثقافت) کی جانب سے جاری شدہ ظاہر کیا گیا، جس پر 22 جون 2025 کی تاریخ درج تھی۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس خبر پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا—کچھ نے اس اقدام کو "اخلاقی دفاع” قرار دیا، جبکہ کئی حلقوں نے اسے ادبی سنسرشپ کی ایک تازہ مثال کہا۔

تاہم، جہان پاکستان ڈیجیٹل نے اس نوٹیفکیشن کی صداقت جانچنے کے لیے جب سرکاری ذرائع، بالخصوص وزارتِ اطلاعات و نشریات کی ویب سائٹ اور متعلقہ اداروں کی اشاعتوں کا جائزہ لیا، تو وہاں اس نوعیت کا کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں پایا گیا۔
علاوہ ازیں، حکومت کی جانب سے کوئی پریس ریلیز، سرکاری بیان یا میڈیا بریفنگ بھی سامنے نہیں آئی، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ دستاویز غیر مصدقہ اور جعلی ہے۔

سعادت حسن منٹو کا نام ہمیشہ سے ادبی اظہار، حقیقت نگاری اور اخلاقی سرحدوں کے درمیان ایک پیچیدہ مگر طاقتور علامت رہا ہے۔ وہ ماضی میں بھی متعدد بار فحاشی کے مقدمات کا سامنا کر چکے ہیں—خصوصاً ان کی کہانی ٹھنڈا گوشت اور دیگر افسانوں کے باعث—تاہم وہ تمام مقدمات عدالت میں لڑے گئے اور منٹو کو تاریخ نے ایک سچ لکھنے والا فنکار تسلیم کیا۔

ادبی حلقوں نے اس جعلی نوٹیفکیشن پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی سازشی افواہیں اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہو سکتی ہیں۔
ماہرین نے کہا ہے کہ ایسی جھوٹی خبریں سوشل میڈیا پر غیر ذمہ داری سے پھیلتی ہیں اور ان کا مقصد ادبی اور فکری شخصیات کی ساکھ کو متاثر کرنا ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button