تازہ ترینخبریںدنیا

سدھو موسے والا ہمارا چاپلوس٬ ریپر کے قاتل گولڈی برار کا دھماکے دارانٹرویو

گولڈی برار نے بی بی سی ورلڈ سروس کو ایک طویل گفتگو میں بتایا کہ سدھو موسے والا کے قتل کے پیچھے کیا وجوہات تھیں۔ برار کے لہجے میں کوئی ندامت یا پچھتاوا نہیں تھا، بلکہ وہ ایک فاتح کی طرح بول رہے تھے۔ ان کے بقول، موسے والا نے ایسی "غلطیاں” کیں جنھیں معاف نہیں کیا جا سکتا تھا، اور ان کے پاس اسے مارنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ گولڈی کے الفاظ میں: "یا تو وہ رہتا، یا ہم۔ یہ سادہ سی بات ہے۔”

گولڈی برار نے اس قتل کی ذمہ داری کھلے لفظوں میں قبول کی، حالانکہ اس وقت وہ بھارت میں نہیں بلکہ کینیڈا میں مقیم تھے۔ ان کی گفتگو میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا کہ سدھو موسے والا کا طرزِ عمل، اس کے رابطے، اور اس کی حرکات گینگ کی نظر میں ناقابل برداشت ہو چکی تھیں۔ حیران کن طور پر، اس کہانی کی بنیاد برسوں پرانی تھی، جب لارنس بشنوئی اور سدھو موسے والا کے درمیان ذاتی رابطہ قائم تھا۔ برار نے بتایا کہ موسے والا ںشنوئی کی چاپلوسی کے لئے "گڈ مارننگ” اور "گڈ نائٹ” کے پیغامات بھیجتا تھا۔ ایک دوست کے مطابق، 2018 میں جیل سے بشنوئی نے موسے والا کو فون کر کے بتایا تھا کہ اسے اس کی موسیقی پسند ہے۔

یہ دوستانہ تعلقات جلد ہی تناؤ کا شکار ہو گئے، خاص طور پر جب موسے والا نے ایک کبڈی ٹورنامنٹ کی تشہیر کی جو بمبیہا گینگ، یعنی بشنوئی کے دشمن گروہ، نے منعقد کیا تھا۔ برار کے مطابق کبڈی کے میچز میں گینگسٹرز کا اثر و رسوخ عام بات ہے اور اس مخصوص گاؤں کا تعلق بھی ان کے حریفوں سے تھا۔ اس عمل کو گینگ کے اندر غداری کے مترادف سمجھا گیا۔ اگرچہ کچھ وقت کے لیے اس مسئلے کو وکی مدھوکھیرا نے سلجھا دیا، لیکن جب اگست 2021 میں وکی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تو بشنوئی گینگ کا صبر ٹوٹ گیا۔ بمبیہا گینگ نے قتل کی ذمہ داری قبول کی، لیکن موسے والا کے سابق منیجر اور قریبی دوست شگن پریت سنگھ پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے قاتلوں کو مدد فراہم کی۔

پولیس کے مطابق موسے والا کے خلاف کوئی براہ راست ثبوت موجود نہیں، لیکن اس کی شگن پریت سے قربت، اور بمبیہا گینگ سے منسلک ہونے کا تاثر، اس کی جان کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ برار کا کہنا ہے کہ شگن پریت نے وکی کے قتل میں معاونت کی تھی اور موسے والا کی خاموشی اس کا جرم بن گئی۔ ان کے مطابق، موسے والا سیاست دانوں، طاقتور شخصیات اور ریاستی اداروں سے قریب ہو چکا تھا، اور اپنے وسائل کا استعمال کر کے گینگ کے دشمنوں کی حمایت کر رہا تھا۔

برار کے نزدیک یہی سب کچھ کافی تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ریاستی ادارے ان کی شکایت پر کارروائی کرتے تو شاید وہ قانون کا راستہ اپناتے، لیکن جب ایسا نہ ہوا تو انہوں نے خود فیصلہ لیا۔ برار کی منطق سادہ تھی: "جب شرافت کی زبان نہیں سنی جاتی، تو گولی کی آواز سنائی دیتی ہے۔”

برار نے یہ سب کچھ نہ صرف تسلیم کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ انہیں کوئی پچھتاوا نہیں۔ ان کے الفاظ میں، "میں نے اپنے بھائی کے لیے جو کرنا تھا وہ کر دیا۔” سدھو موسے والا کی موت صرف ایک معروف موسیقار کے کھو جانے کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ اس واقعے نے پنجاب کی گینگ وار کو اور زیادہ بے خوف بنا دیا ہے۔ موسیقی کی دنیا کو ایک بڑا نقصان پہنچا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاستی قانون، عدلیہ اور نظامِ انصاف کی ساکھ پر بھی ایک گہرا سوالیہ نشان لگ گیا۔

جواب دیں

Back to top button