
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاھو سے ایک ٹیلیفونک گفتگو کے دوران واضح کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے تک پہنچنے کا موقع دیکھ رہے ہیں اور اس وقت کسی قسم کی فوجی کارروائی کے حامی نہیں۔
امریکی اور اسرائیلی ذرائع کے مطابق یہ گفتگو کچھ روز قبل اُس ڈیڈلائن سے پہلے ہوئی جس میں ٹرمپ نے ایران کو معاہدے کے لیے دو ماہ کی مہلت دے رکھی ہے۔ خبر رساں ادارے "ایکسئیس” کے مطابق نیتن یاھو نے 40 منٹ طویل گفتگو میں ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایران تاخیری حربوں میں مہارت رکھتا ہے، اس لیے اسے ایک "قابلِ اعتماد فوجی دھمکی” دی جائے۔
تاہم اسرائیلی ذرائع کے مطابق ٹرمپ اس دلیل سے متاثر نہ ہوئے۔
ایک امریکی عہدیدار کے مطابق صدر ٹرمپ نے نیتن یاھو سے گفتگو میں کہا کہ وہ ایرانی قیادت کے رویے سے نالاں ہیں، مگر ان کا خیال ہے کہ ایران کو مذاکرات کے ذریعے معاہدے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ مذاکرات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔
یہ گفتگو ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب صدر ٹرمپ اور ان کی اعلیٰ سطحی خارجہ پالیسی ٹیم نے کیمپ ڈیوڈ میں کئی گھنٹے اجلاس کر کے ایران کے نیوکلیئر بحران اور غزہ کی جنگ کے حوالے سے امریکی حکمتِ عملی پر غور کیا۔
امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ان دونوں مسائل کو ایک بڑے علاقائی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور ان کے حل کے لیے ایک متوازن فریم ورک تیار کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر ایک اسرائیلی ذریعے نے تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ نے بنجمن نیتن یاھو کو ایران پر حملے کی منظوری دینے سے صاف انکار کر دیا۔ نیتن یاھو نے ایران کے ساتھ جاری نیوکلیئر مذاکرات کو روکنے کے لیے بھی زور دیا، مگر ٹرمپ اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔
ادھر ایرانی حکام امریکہ کی طرف سے پیش کردہ جوہری معاہدے کی تجاویز پر اپنا جواب تیار کر رہے ہیں، جس کے اس ہفتے باقاعدہ مسترد کیے جانے کا امکان ہے۔
اسی تناظر میں امریکہ اور ایران کے درمیان چھٹی نیوکلیئر بات چیت اتوار کے روز سلطنتِ عمان میں متوقع ہے، جس میں وائٹ ہاؤس کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی شریک ہوں گے۔
یاد رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اب تک پانچ مذاکراتی دور ہو چکے ہیں جو 12 اپریل سے جاری ہیں، جبکہ چھٹا دور آئندہ دنوں میں متوقع ہے۔