Column

سانحہ خضدار

سانحہ خضدار
تحریر : صفدر علی حیدری
’’ ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھو دئیے، بچوں کی ٹانگیں چاک جبکہ آنتیں جسم سے باہر لٹکی ہوئی تھیں ۔ جائے وقوعہ پر ہر طرف تباہی کا منظر تھا۔ طلبا و طالبات کی کتابیں، جوتے اور دیگر اشیا ہر طرف بکھری ہوئی تھیں جبکہ سکول بس اور اُس گاڑی کے پرخچے دور دور تک بِکھرے ہوئے تھے جس میں حکام کے مطابق دھماکہ خیز مواد نصب تھا ‘‘۔
ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق یہ سکول بس خضدار چھانی کے ایک حصے سے سکول کے بچوں اور بچیوں کو لے کر کینٹ کے دوسرے حصے میں واقع سکول کی جانب جا رہی تھی اور جب یہ خضدار شہر سے 8کلومیٹر جنوب مغرب میں کوئٹہ کراچی ہائی وے اور خضدار رتو ڈیرو شاہراہ کی سنگم پر زیرو پوائنٹ کے مقام پر پہنچی تو اس کو نشانہ بنایا گیا۔ بظاہر یہ ایک خودکش حملہ تھا اور مبینہ طور پر حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے لدی اپنی گاڑی کو سکول بس سے ٹکرایا، تاہم سرکاری سطح پر فی الحال اس کی تصدیق نہیں ہو سکی اور گزشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا تھا کہ یہ حملہ ’’ گاڑی میں نصب دھماکہ خیز مواد‘‘ کی مدد سے کیا گیا ۔
حکام کے مطابق اس حملے میں چار بچیوں اور بچوں سمیت چھ افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر بھی شامل ہیں جبکہ ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر دشتی کے مطابق دھماکے میں 36سے زائد طلبا زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جو بچے شدید زخمی ہوئے تھے وہ سی ایم ایچ کوئٹہ میں زیر علاج ہیں ۔
رپورٹس کے مطابق صحافیوں کو جائے حادثہ اور سی ایم ایچ کوئٹہ تک رسائی نہیں دی گئی اور ان مقامات پر سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ تاہم جن سرکاری حکام نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اُن میں کمشنر کوئٹہ ڈویژن محمد حمزہ شفقات بھی شامل ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے لکھا کہ وہ اس دھماکے میں زخمی ہونے والے بچوں کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے تھے۔ اُن کے مطابق ’’ ہسپتال میں میں نے ایک والد کو دیکھا جس نے اپنے تمام بچوں کو کھو دیا ہے۔ اُن کی ایک بیٹی موقع پر ہی فوت ہو گئی جبکہ دوسری ہسپتال پہنچ کر۔ اُن کا تیسرا بیٹا انتہائی تشویشناک حالت میں زیر علاج ہے‘‘
انھوں نے مزید لکھا’’ کچھ بچوں کی ٹانگیں چاک ہو چکی تھیں، آنتیں جسم سے باہر نکل چکی تھیں۔ کچھ بچوں کی ٹانگیں کچلی ہوئی یا ٹوٹ چکی تھیں۔ کیونکہ دھماکے کی شدت سے بس کی چھت اڑ گئی تھی اور دھماکے کی شدت نے بچوں کو ان کی سیٹوں سے اچھال کر کئی فٹ فضا میں پھینک دیا تھا اور وہ واپس آ کر بس پر یا زمین پر گرے ‘‘۔
کمشنر نے لکھا کہ ایک بچے کی دونوں آنکھیں ضائع ہو گئیں اور وہ ہمیشہ کے لیے نابینا ہو گیا ہے جبکہ چھروں نے بچوں کے جسموں کے مختلف حصوں کو چھلنی کر دیا۔ ’’ میں اس سے بدتر منظر کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہاں لوگوں کو جس صورتحال کا سامنا ہے میں وہ بیان نہیں کر سکتا‘‘۔
12 سال سے کم عمر کے بچے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹرز بھی پریشان تھے۔ بچے خوفزدہ اور سکتے کی حالت میں ہیں۔ والدین سب کچھ کھو چکے ہیں۔ ایسا کون کر سکتا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران انڈین سرپرستی میں ہونے والا شدت پسندوں کا یہ 25واں حملہ ہے۔
جس مقام پر اس سکول بس کو نشانہ بنایا گیا اس سے کچھ فاصلے پر خضدار سے تعلق رکھنے والے رئیس عمران نامی شہری کا پٹرول پمپ ہے۔ دھماکے کی شدت کی وجہ سے اُن کے پٹرول پمپ کو نقصان پہنچا اور اس کے شیشے ٹوٹ گئے۔ جس وقت دھماکہ ہوا ان کے دونوں ملازمین سو رہے تھے اور بعد ازاں انہوں نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو وہ اس سے اٹھ گئے اور ان کو ایسا لگا جیسے کوئی شدید زلزلہ آیا ہو۔ دونوں ملازمین کے مطابق وہ جب باہر نکلے تو ان کو اس مقام سے بہت زیادہ دھواں اور مٹی اڑتا ہوا دکھائی دیا جہاں بس دھماکے کی زد میں آئی تھی
ایک عینی شاہد کہتا ہے ’’ میں نے ایک بچے کی نیلے فریم والے عینک کو بھی دیکھا جو کہ دھماکے کی وجہ سے دور گر گئی تھی مگر محفوظ اور دھول مٹی سے اٹی ہوئی تھی۔ خون آلود کتابوں کو دیکھ کر دل افسردہ ہوا‘‘۔
اس واقعے کے بعد وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انڈیا کے دہشتگرد نیٹ ورک نے بلوچستان میں اپنی پراکسی تنظیموں کے ذریعے یہ حملہ کرایا۔
وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس واقعے کے بعد کوئٹہ کا ہنگامی بنیادوں پر دورہ کیا اور انہوں نے کور ہیڈکوارٹر کوئٹہ میں اس واقعے کے حوالے سے ایک بریفنگ میں بھی شرکت کی۔ وہ سی ایم ایچ بھی گئے جہاں انہوں نے دھماکے میں زخمی ہونے والے بچوں اور بچیوں کی عیادت کی اور ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔
اس واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بعض وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کے ہمراہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں حملے کا الزام انڈیا پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈیا کی بزدلانہ سوچ ہے کہ وہ بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ دشمن سے اس قدر گرنے کی توقع نہیں تھی، انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث تمام عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
ادھر کوئٹہ میں نیشنل سٹوڈنٹس موومنٹ کے زیر اہتمام وزیرستان میں ڈرون حملوں اور خضدار میں سکول بس پر حملے میں بچوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ کوئٹہ پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے کے شرکاء نے دونوں واقعات کے بارے میں تحقیقات کرنے اور ان میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے کھڑا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے قبل جنوری کے مہینے میں روڈ پر ایک مسافر بس پر ہونے والے حملے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔
طویل عرصے سے خضدار شہر اور اس ضلع کے دیگر علاقوں میں سنگین بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے ۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ خضدار واقعے پر ہم جو کہہ رہے ہیں، اُس کا ثبوت دیں گے۔ کالعدم بی ایل اے بھارتی پراکسی کے طور پر کام کر رہی ہے۔ خضدار واقعے پر ہم جو کہہ رہے ہیں اس کا ثبوت دیں گے، بھارت پیسہ دیتا ہے، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے یہاں خونریزی کرتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خضدار واقعے نے پوری قوم کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے واقعے کو ناقابل برداشت اور انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا، جو کسی بھی مذہب یا تہذیب میں جائز نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کئی برس سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے اور ہمارے دشمن اس جنگ میں بچوں کو نشانہ بنا کر ہماری حوصلہ شکنی چاہتے ہیں۔ ہماری اصل جنگ ان دہشتگردوں سے ہے جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور بھارت کی مالی و عسکری مدد سے بی ایل اے جیسے گروہوں کو تقویت دیتے ہیں۔ شیری رحمان نے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ بلوچستان میں تخریب کاری، دہشتگرد نیٹ ورکس کی مالی معاونت، اسلحے کی فراہمی اور حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث رہا ہے، جو بھارتی ریاستی دہشتگردی کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔
بلوچستان کا یہ سانحہ ہمیں سانحہ پشاور کی یاد دلا گیا جس میں سیکڑوں طلباء و طالبات شہید ہو گئے تھے۔
اس واقعے پر اب کیا لکھا جائے۔ سوائے اس کے کہ سانحہ پشاور میں ایک طالب علم کی شہادت کا کب ذکر کیا گیا تو اس کے والد نے بڑے دکھ سے کہا تھا
’’ ہم نے بچوں کو جنگ پر نہیں بھیجا تھا سکول بھیجا تھا‘‘۔

جواب دیں

Back to top button