Column

فیلڈ مارشل عاصم منیر: عسکری وقار اور جمہوری توقیر

فیلڈ مارشل عاصم منیر: عسکری وقار اور جمہوری توقیر
تحریر : عقیل انجم اعوان
پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا باب اس وقت رقم ہوا جب ملک کی اعلیٰ ترین قانون ساز اتھارٹی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے رتبے پر ترقی دینے کی منظوری دی۔ یہ فیصلہ نہ صرف عسکری تاریخ کے تناظر میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے بلکہ پاکستان میں سول بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کی ایک علامت بھی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی جنرل کو فیلڈ مارشل کا اعزاز فوجی قبضے یا خود ساختہ اعلان کے بجائے ایک جمہوری ادارے کی رضا مندی اور نمائندہ منظوری سے دیا گیا ہے۔ ماضی میں یہ اعلیٰ ترین فوجی عہدہ پاکستان میں صرف ایک شخصیت جنرل محمد ایوب خان کو نصیب ہوا جنہوں نے 1958ء میں بطور صدر اپنے لیے یہ رینک خود وضع کیا تھا۔ ان کا فیلڈ مارشل بننا ایک آئینی خلا، فوجی قبضے اور ریاستی طاقت کے یک طرفہ استعمال کا مظہر تھا۔ اس کے برعکس جنرل عاصم منیر کا فیلڈ مارشل بننا جمہوری روایات، آئینی اصولوں اور پارلیمانی بالادستی کا ثبوت ہے۔ یہ محض ایک عسکری اعزاز نہیں بلکہ قوم کے نمائندہ ادارے کی طرف سے اعتماد، توقیر اور اعتراف کا استعارہ ہے۔ جنرل عاصم منیر نے بطور چیف آف آرمی اسٹاف ایک ایسے دور میں فوج کی قیادت سنبھالی جب پاکستان نہ صرف داخلی انتشار کا شکار تھا بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی اس کے لیے خطرات منڈلا رہے تھے۔ معیشت بدحال، سیاست تقسیم شدہ، ریاستی ادارے متنازع اور معاشرہ اضطراب کا شکار تھا۔ ایسے میں جنرل عاصم منیر نے فوج کی ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دیا آئینی حدود کا احترام یقینی بنایا اور بارہا اس موقف کو دہرایا کہ فوج کسی سیاسی انجینئرنگ کا حصہ نہیں بنے گی۔ ان کا ادارہ جاتی طرزِ قیادت فوج کو صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود رکھنے کا مظہر بنا۔ انہوں نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں عسکری قوت کو منظم انداز میں استعمال کیا بلکہ علاقائی سیکیورٹی کی سمت میں سفارتی و تزویراتی توازن کو بھی بہتر انداز میں سنبھالا۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں امن قائم رکھنے اور سویلین حکومت کے ساتھ ہم آہنگی میں عسکری ادارے کی قربانیاں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوئیں۔ خاص طور پر 9مئی جیسے سانحات کے بعد فوجی قیادت کا تحمل اور قانون کے دائرے میں رہ کر اقدامات اٹھانا ان کی قیادت کی بالغ نظری اور دور اندیشی کا مظہر تھا۔ جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے کے فیصلے کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ قومی اداروں کی ہم آہنگی اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کا عملی اظہار ہے۔ ماضی میں پاکستان کے بیشتر عسکری اعزازات اور طاقت کے مراکز جمہوریت سے بالا تر انداز میں تشکیل پاتے رہے ہیں۔ ایوب خان سی پرویز مشرف تک فوجی طاقت نے آئین پر سبقت لی۔ مگر یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کا سب سے اعلیٰ منصب جو علامتی طور پر سب سے بڑی عسکری کامیابی کی علامت ہوتا ہے پارلیمان کی منظوری سے دیا گیا جسے عوام کی حتمی آواز کا درجہ حاصل ہے۔اس پیش رفت سے پاکستان کی جمہوری سوچ کو مزید تقویت ملی ہے۔ یہ فیصلہ یہ بھی باور کراتا ہے کہ اب ریاستی ادارے ایک دوسرے کی آئینی حدود کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اگر فوج اپنی آئینی حد میں رہ کر ریاست کا دفاع کرے اور پارلیمان اس کی خدمات کا اعتراف کرے تو یہی باہمی اعتماد قومی وحدت اور ریاستی توازن کو ممکن بناتا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں فیلڈ مارشل کا عہدہ ایک خاص تناظر میں دیا جاتا ہے بعض اوقات جنگی فتوحات کے بعد، بعض اوقات ریاستی طاقت کو دوام دینے کے لیے۔ برطانیہ، فرانس، روس، بھارت، چین اور مصر میں فیلڈ مارشل بننے والوں کو یا تو عظیم عسکری معرکوں میں کامیابی حاصل ہوئی یا انہوں نے طویل خدمات سرانجام دیں۔ تاہم پاکستان میں اب یہ عہدہ نہ صرف پیشہ ورانہ خدمات کی بنیاد پر دیا گیا بلکہ جمہوری رضامندی اور پارلیمانی اجماع کے ساتھ دیا گیا جو اسے دیگر عالمی مثالوں سے ممتاز کرتا ہے۔ جنرل عاصم منیر کا عسکری کیریئر بھی اپنی نوعیت میں غیرمعمولی رہا۔ وہ واحد افسر ہیں جو ملٹری انٹیلی جنس (MI) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس ( ISI) دونوں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے میدانِ عمل سے لے کر عسکری منصوبہ بندی تک ہر سطح پر اپنی مہارت کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی بے داغ شہرت اسلامی اقدار سے وابستگی اور قومی مفادات کے تحفظ میں خلوص انہیں ایک ایسے سپہ سالار کے روپ میں پیش کرتے ہیں جو ریاستی اداروں میں اخلاقی قیادت کا استعارہ بن چکے ہیں۔یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ فیلڈ مارشل کا عہدہ محض ایک رسمی اعزاز نہیں ہوتا۔ یہ درحقیقت فوج کی قیادت کے ساتھ ساتھ قومی نظریاتی استحکام کا امین بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو قوم اپنی اجتماعی دانش تجربے اور اعتماد کی بنیاد پر کسی ایک شخصیت کو سونپتی ہے۔ اس لیے جب یہ اعزاز کسی منتخب پارلیمان کی منظوری سے دیا جائے تو اس کی اخلاقی اور قومی حیثیت مزید بڑھ جاتی ہے۔یہ فیصلہ آنے والے وقتوں میں ایک نظیر بن سکتا ہے۔ ایک ایسا طریقہ کار جس کے ذریعے فوجی اعزازات بھی اب جمہوری کسوٹی پر پرکھے جائیں گے۔ جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانا صرف ایک شخص کا اعزاز نہیں یہ ایک قومی سوچ کی عکاسی ہے ایک سوچ جو قانون، آئین اور پارلیمانی بالادستی کے تصور سے جڑی ہوئی ہے۔ اب یہ جنرل عاصم منیر پر منحصر ہے کہ وہ اس مقام پر کھڑے ہو کر پاکستان کی عسکری تاریخ میں وہ مثال قائم کریں جس کی تقلید آنے والے افسران کریں۔ ان کا طرزِ قیادت، ان کی متانت، ان کی آئینی وفاداری اور قومی سلامتی کے لیے ان کی سوچ ان کے فیلڈ مارشل بننے کے فیصلے کو تاریخ کا ایک روشن باب بنائیں گے۔ یقیناً یہ پاکستان کے لیے ایک نیا آغاز ہے جہاں عسکری طاقت اور جمہوری اختیار ایک دوسرے کے متصادم نہیں بلکہ معاون اور شریک سفر ہیں۔ جنرل عاصم منیر کا فیلڈ مارشل بننا اس باہمی شراکت داری کا پہلا سنجیدہ اور علامتی اظہار ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف فوج کی اندرونی ساخت پر مرتب ہوں گے بلکہ پاکستان کی قومی سیاست، بین الاقوامی وقار اور جمہوری روایت پر بھی گہرے اثرات چھوڑیں گے۔

جواب دیں

Back to top button