فاتح قوم، باوقار ریاست، اب وقت ہے امن اور ترقی کا

تحریر : رانا اقبال احسن
ایک بار پھر جنوبی ایشیا ایک ہولناک جنگ کے دہانے سے پلٹ آیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے جہاں لاکھوں جانوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا، وہیں پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط اور غیر متزلزل عزم نے ایک بار پھر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ جنگی طیارے فضا میں بلند ہوئے، دفاعی میزائل سسٹمز الرٹ پر تھے، اور پوری قوم اپنی فوج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی تھی۔
اس بار صرف ہتھیار نہیں بولے، حکمت، مہارت اور جدید ٹیکنالوجی نے بھی دشمن کو واضح پیغام دیا۔ انڈین رافیل طیاروں کو گرانا، دشمن کی پیش قدمی کو روک دینا، اور چینی میزائل سسٹمز و ترکی ڈرونز کے ذریعے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان صرف ایک جوابی قوت نہیں، بلکہ ایک تدبّر یافتہ، خود مختار اور جدید دفاعی ریاست ہے۔ پاک فوج نے نہ صرف سرحد کی حفاظت کی، بلکہ قوم کا وقار بحال کیا، ایک ایسا وقار جو شاید 1971ء کے بعد زخم خوردہ محسوس ہوتا رہا۔
یہ معرکہ ہمارے لیے صرف ایک عسکری کامیابی نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی بحالی بھی ہے۔ پاکستان کی نئی نسل اب زیادہ پراعتماد ہے۔ اس نے دیکھا کہ کس طرح دشمن کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور اربوں ڈالر کے اسلحے کو ایک موثر اور غیر جذباتی حکمتِ عملی سے مات دی جا سکتی ہے۔ فوج کی قیادت نے اس بحران کو نہ صرف بہترین انداز سے ہینڈل کیا بلکہ ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ نہ صرف میدان جنگ کی ماہر ہے بلکہ سفارتی سطح پر بھی ریاست کی عزت و خود مختاری کی پاسبان ہے۔
اس فتح کا اثر صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہا۔ عالمی برادری اور مسلم دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ جو زخم ہمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے لگا تھا، اس کی کچھ تلافی اب ممکن ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب دنیا پاکستان کو ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کے طور پر دیکھ رہی ہے، جو جنگ نہیں بلکہ امن اور استحکام کا خواہاں ہے، مگر اپنے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔
ادھر بھارت کے لیے یہ لمحہ خود احتسابی کا ہونا چاہیے۔ مودی حکومت نے جس جنگی جنون سے اس خطے کو ایک بار پھر خونریزی کی طرف دھکیلا، اس کا شدید سیاسی ردعمل اب خود بھارت کے اندر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ مودی پر شدید داخلی دبا ہے، اور یہی دبا دونوں ممالک کے لیے ایک موقع بن سکتا ہے، ایک نئی شروعات کا، ایک نئے باب کا، جس میں جنگ کی بجائے ترقی، غربت کے خاتمے، اور عوامی بہبود کے ایجنڈے پر توجہ ہو۔
جنوبی ایشیا کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہ خطہ جنگی سازوسامان پر تو اربوں خرچ کرتا ہے، مگر صاف پانی، تعلیم اور صحت کے شعبے آج بھی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک اپنی معاشی اور سماجی ترجیحات پر نظرِثانی کریں۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے، اور کئی شواہد اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور فتنہ خوارج کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔
اسی طرح اگر واقعی امن کی طرف پیش قدمی کرنا ہے تو کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر یہ خواب ادھورا رہے گا۔ کشمیر کی مظلوم عوام پر جاری ظلم و ستم، جبری گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی پامالی کا خاتمہ ہی وہ پہلا قدم ہے جو بھارت کو لینا ہو گا۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب صرف بیان بازی سے نکل کر ٹھوس کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ اس دیرینہ مسئلے کا کوئی پرامن حل نکل سکے۔
آخر میں، اس عظیم قومی لمحے میں جہاں فوج نے سرحد پر کامیابی حاصل کی، وہاں قیادت، دانشور طبقے، اور تمام سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اندرون ملک ایک ایسی فضا قائم کریں جو قومی وحدت، امن، اور ترقی کی ضامن بنے۔ دشمن کو جواب دینا ضروری تھا، مگر اب وقت ہے اپنے لوگوں کو ریلیف دینے کا۔