سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کے ممکنہ اثرات؟

تحریر : روشن لعل
پہلگام واقعہ کے فوراً بعد کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیے بغیر ، بھارتی حکومت نے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے جو مختلف اقدامات کرنے کا اعلان کیا ان میں سے سب سے زیادہ اہمیت سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کو دی جارہی ہے۔ پہلگام واقعہ کے بعد مودی سرکار کی جانب سے پاکستانیوں پر ویزے کی پابندی یا سفارتی عملہ کی تعداد میں کمی جیسے اقدام کو ایسی کارروائیاں سمجھا جارہا ہے جو اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہیں لیکن سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کو غیر معمولی عمل تصور کیا جارہا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ پر عمل درآمد کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے بھارتی کردار پر اکثر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن عام حالات اور حتیٰ کہ دونوں ملکوں کے درمیان لڑی جانے والی تین جنگوں کے دوران بھی کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بھارت نے پانی کی تقسیم کے معاہدی کو معطل یا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہو۔ اب بھارت نے جب سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے تو ہمارے ہاں کثرت سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ پانی کی تقسیم کے معاہدے کی معطلی کے ہم پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ نریندر مودی کے ہر جائز و ناجائز کام کی بے سروپا طریقے سے حمایت کرنے والے بھارت کے ’ گودی میڈیا‘ کی طرف سے تو یہ اعلان تک کر دیا گیا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی عوام پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔ ’ گودی میڈیا‘ کے برعکس بھارت کے کچھ آبی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ کسی معاہدے کی معطلی اور منسوخی میں فرق ہوتا ہے، ان لوگوں کے مطابق معاہدے کی معطلی کے اعلان کے بعد پاکستان کی طرف جانے والا پانی روکا نہیں جائے گا لیکن معاہدے کے مطابق پانی کا بہائو پاکستان کی طرف جاری رکھنے کے لیے دنوں ملکوں کے اہلکاروں اور ماہرین کے درمیان رابطے رکھنے، دیٹا سے ایک دوسرے کا آگاہ کرنے اور ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کے لیے ملاقاتیں کرنے کا سلسلہ اب جاری نہیں رہ سکے گا۔ بھارتی آبی ماہرین نے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کی جو تشریح کی ہے وہ بڑی حد تک درست ہے لیکن بھارت اس معاہدے کی معطلی کا باقاعدہ اعلان کرنے سے پہلے بھی کئی مرتبہ وہ کام کر چکا ہے جنہیں اب معطلی کے اعلان سے جوڑا جارہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت کئی مرتبہ پاکستان کو پانی کے بہائو کے اعدادوشمار کی فراہمی روک چکا ہے ، اس کے علاوہ بھارت نے ایک سے زیادہ مرتبہ دونوں ملکوں کے انڈس واٹر ٹریٹی کمشنرز کی سالانہ میٹنگ کے انعقاد میں رخنہ ڈالا۔ سندھ طاس معاہدہ پر عمل درآمد کے حوالے سے بھارت پہلے جو کام غیر اعلانیہ طور پر کرتا رہا اس معاہدے کو معطل کر کے اب اس نے یہ کام کھل کر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان پہلگام واقعہ کے بعد کیے جانے سے بادی النظر میں یہ واقعہ ہی بھارتی اقدام کی وجہ نظر آتا ہے لیکن اگر بھارت کے ان افعال کو دیکھا جائے جو وہ پہلگام واقعہ سے پہلے کرتا رہا تو پھر ممکنہ وجوہات کا ایک مختلف خاکہ بھی سامنے آجاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعہ کے بعد سندھ طاس معاہدے کو چھیڑا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانی کی تقسیم کے اس معاہدہ کے ساتھ بھارت کی چھیڑ چھاڑ ایک عرصہ سے چلی آرہی ہے۔ بھارتی میڈیا میں تقریباً ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل اس قسم کے موقف کا اظہار شروع ہو گیا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ کرتے وقت سسٹم میں موجود اسی فیصد پانی پاکستان کو اور بیس فیصد بھارت کو دیا گیا ، ایسے مضامین میں پانی کی تقسیم کو غیر متوازن قرار دیتے ہوئے آبی تقسیم کے معاہدہ میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے حوالے سے پہلے جو مطالبہ اخبارات میں شائع ہوتا تھا سال 2023ء میں بھارتی حکومت نے ایک خط کے ذریعے باقاعدہ پاکستان کے سامنے رکھ دیا ۔ بعدازاں اس خط کے تسلسل میں بھارت نے 2024ء میں بھی حکومت پاکستان کو مزید ایک خط لکھ کر اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔ جو لوگ پہلگام واقعہ کو جنرل عاصم منیر کی اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن میں کی گئی تقریر کے ساتھ جوڑتے ہیں ان کی سازشی تھیوریوں کی رو سے تو کچھ لوگوں کا یہ موقف بھی قابل غور ہونا چاہیے کہ پہلگام واقعہ کی آڑ میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے والا بھارت اصل میں ایک عرصہ سے اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے بہانے تلاش کر رہا تھا۔ کسی بھی سازشی تھیوری کا جواب سازشی تھیوری کی شکل میں دیا جاسکتا ہے لیکن کسی بھی معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے فوری طور پر اخذ کی گئی سازشی تھیوری کی بجائے ایک پراسیس کے تحت سامنے آنے والے حقائق بیان کیے جائیں۔
بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کے اصل پس منظر کو اگر دیکھا جائی تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ دس برس سے بھی زیادہ عرصہ پہلے جب بھارت کو یہ علم ہوا کہ چائنہ ان دریائوں پر ہیڈ ورکس اور پاور ہائوس بنانا چاہتا ہے جو چین سے براہ راست یا براستہ نیپال بھارت کی طرف آتے ہیں تو بھارتی حکومت کی طرف سے چین کو ان دریائوں کے پانی کے استعمال سے متعلق معاہدہ کرنے پیش کش کی گئی جسے چین نے نہ صرف رد کیا بلکہ دریائے برہم پترا اور ستلج پر بیراج اور پاور ہائوس بنانے کا کام شروع بھی کر دیا۔ چین کے اس عمل کے بعد بھارت نے جس طرح سے سندھ طاس معاہدے کو سبو تاژ کرنے کی کوششیں شروع کیں اس سے بادی النظر میں یہی دکھائی دیتا ہے چین کی طرف سے اپنے مقاصد کے دریائوں کو استعمال کرنے سے بھارت کی طرف پانی کے بہائو میں جو ممکنہ کمی ہوسکتی ہے بھارت کسی بھی حیلے بہانے سے اسے سندھ طاس سسٹم سے پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی سے پورا کرنا چاہتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے سے پاکستان پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدی کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریائوں میں سے 3180کلو میٹر لمبے دریائے سندھ کا 710کلومیٹر حصہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے لداخ میں آتا ہے۔ اس علاقہ کا جغرافیہ ایسا ہے بھارت وہاں سے دریائے سندھ کا پانی اپنی مرضی کے مطابق استعمال نہیں کر سکے گا۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے دوسرے دو دریا جہلم اور چناب بھارت کے ایسے علاقوں میں بہتے ہوئے پا جہاں بھارت فوری طور پر تو نہیں لیکن اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے آئندہ پانچ دس برسوں میں ایسا سٹرکچر بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے جس سے ان دونوں دریائوں کے پاکستان کی طرف آنے والے پانی کی بڑی مقدار کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکے ۔ اگر بھارت ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے پنجاب کے ان علاقوں کے لوگوں کو ہو گا جنہیں قیام پاکستان کے وقت ہی دریائے راوی اور ستلج کے پانی سے محروم کر دیا گیا تھا۔