Column

پروفیسر خورشید، ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے

تحریر : مظفر اعجاز
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے ساتھی پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے نائب امیر تھے، ان کے انتقال پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور بہت لکھا جاسکتا ہے، اور جو بھی لکھا جائے گا وہ سورج کو چراغ دکھانے سے زیادہ نہیں ہوگا۔ وہ سرتا پا داعی تھے، انہوں نے جماعتی ذمہ داریوں کے علاوہ سینیٹ میں نمائندگی بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کی لیکن سینیٹ، آئی پی ایس یا کسی بھی ادارے سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی بھی طرح سے پروفیسر خورشید کو صرف جماعتی نہیں کہہ سکتے، بلکہ وہ ہمیشہ خدا لگتی کہنے والوں میں سے تھے ۔ ان کا فیض عام تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ خورشید صاحب کی زندگی بھی اتنی سادہ تھی اور عام تھی کہ ان کے بارے میں ہر کوئی جانتا تھا، اتفاق سے ہماری ملاقاتیں صحافت اور اخباری کارکنوں کی یونین ، ہر دو اعتبار سے ان کے ساتھ رہیں اور دونوں میں ہم نے انہیں کھرا پایا۔
پروفیسر خورشید جس بلند مرتبے کے آدمی تھے اتنی ہی آسانی سے مل جایا کرتے تھے ، جب 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت آئی تو ان سے آئی پی ایس کے دفتر میں ملاقات ہوئی، وہاں کچھ باتیں ہوئیں، جب ہم نے خورشید صاحب سے پوچھا کہ حکومت میں شامل ہوں گے یا اتحاد کو کامیاب بنا کر نواز شریف کی حکومت بنوا کر مطمئن ہیں، تو انہوں نے الٹا سوال کرلیا کہ آپ بتائیں حکومت میں شامل ہوا جائے یا نہیں، حیرت انگیز طور پر یہی سوال ہم نے لاہور میں محترم خرم مراد سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی سوال کیا کہ آپ بتائیں، اور مزید حیرت بلکہ اطمینان کا باعث دونوں کا جواب تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شامل ہوا جائے یا نہیں، شامل ہونے کے فوائد سے زیادہ نقصان ہیں، اور نہ شامل ہونے کا متبادل کیا ہو اس پر بھی رائے دیں۔ ہم گرم خون والے تھے، دونوں سے کہا کہ پھر اتحاد بنانے اور الیکشن لڑنے کا کیا فائدہ ، خرم و خورشید دونوں کا جواب یہی تھا کہ ہم ایسی حکومت میں شامل نہیں ہونگے جس کی ڈرائیونگ سیٹ کسی اور کے ہاتھ میں ہو، ورنہ چند برس میں سارا ملبہ جماعت اسلامی پر آن گرے گا، یہ اور بات ہے کہ ملبہ تو گرایا ہی گیا جماعت پر، جس نے وزارتیں بھی نہیں لیں، اور فوائد سمیٹنے والے آج تک جمہوریت کے چیمپئن ہیں بہرحال پروفیسر خورشید سے اس بارے میں مزید تفصیل سے گفتگو ہوئی، ہم نے پوچھا اگر حکومت میں نہیں آئیں گے تو اندر کا حال حکمرانوں کے عزائم آور منصوبے کیسے معلوم ہونگے۔ اس پر خورشید صاحب نے کہا کہ اندر کے حال کی فکر نہ کریں یہ لوگ بھی کمزور ہیں اور اندر ہمارے ہمدرد موجود ہیں ان کے ذریعہ احوال معلوم ہوتا رہے گا۔ سب سے اہم اسلامی نظام معیشت ہے، اگر یہ سنجیدہ ہونگے تو اس منصوبے پر عمل کریں گے جو میں تیار کرکے انہیں دے رہا ہوں، اور اگر اس پر عمل نہ کیا تو ہم ان سے راستے الگ کر لیں گے، اور مسلم لیگ نے پروفیسر خورشید کا بنایا ہوا اسلامی معیشت کا خاکہ خاک میں اڑا دیا اور بعد میں یہی اختلاف کا اصل سبب تھا وزارتیں اور مراعات تو لی ہی نہیں تھیں کہ ان پر کوئی جھگڑا ہوتا۔ البتہ ہم نے خورشید صاحب سے کہا کہ وسط ایشیائی مسلم ریاستوں میں مولانا کا لٹریچر ان ہی کی زبانوں میں پہنچایا جائے اس کے لئے حکومت سے مدد لیں ، خورشید صاحب نے اتنا کہا کہ یہ ہمارا اصل کام ہے اور یہ ہم ضرور کریں گے، اور یہ کام ہوا بھی۔
ان بزرگوں کے خیالات کی ہم آہنگی اور مستقبل کے خدشات کے بارے میں یکسانیت، بعد کے حالات میں درست نکلے ، وزارتیں لئے بغیر ملبہ ڈالا گیا تو وزارتوں کے بعد کیا ہوتا اس کا اندازہ مشکل نہیں تھا۔
پروفیسر خورشید سے روزنامہ جسارت کی یونین کے حوالے سے بھی ملاقاتیں رہیں، ایک ملاقات تو ایسی ہوئی کہ ہم لاہور میں چودھری رحمت الٰہی، خرم مراد اور لیاقت بلوچ سے ملاقات کرکے کراچی پہنچے تو خورشید صاحب سے ان کے بھائی ایڈمرل احمد ضمیر کے گھر ملاقات طے ہوئی، صرف بیس منٹ ملے، لیکن وہ بھی راستے میں ضائع ہوگئے ، گھر میں داخل ہوئے تو خورشید صاحب پابہ رکاب تھے گاڑی تیار تھی سامان رکھا جا چکا تھا، ہم، مقصود یوسفی اور خلیل اللہ فاروقی بھی تھے، چند لمحے ہمیں دیکھا پھر کہا کہ اچھا ایسا کرو میرے ساتھ ایئر پورٹ چلو واپسی کا اسی گاڑی میں سفر کر لینا، اور ہم ان کے دائیں بائیں بیٹھ گئے، سارا راستہ جسارت، خسارہ کارکن ، ویج بورڈ، اسلامی تحریک کے حوالے سے باتیں ہوتی رہیں اور وہ جسارت کی انتظامیہ تبدیل کرانے پر راضی نظر آئے، لیکن کہا کہ اس کا ایک طریقہ ہے جس کی ذمہ داری ہے ان سے بات کروں گا، اور چند دن میں یہ تبدیلی آگئی۔ یہ اور بات ہے کہ تین سال بعد وہی شکوے ان ہی سے کئے جارہے تھے اور پروفیسر خورشید حلقہ صحافت کے احباب کے درمیان گھرے ہوئے یہ سب سرد و گرم سن رہے تھے ، پھر تبدیلی کا مطالبہ سن کر تحمل سے کہا کب تک لوگ بدلتے رہیں ، اس پر ضرار خان جو کہا تحمل تو اس موقع پر دیدنی تھا، ضرار خان نے کہا جب تک معقول آدمی نہ آجائے، خورشید صاحب نے تحمل سے سنا اور اتنا کہا، اسے بھی دیکھ لیتے ہیں نہ ضرار کو ڈانٹا نہ برا سا منہ بنایا، اور مزے کی بات یہ ہے کہ تبدیلی پھر آگئی۔
پروفیسر خورشید کے ساتھ جدہ اردو نیوز میں بھی ملاقاتیں رہیں، ایک ملاقات میں انٹرویو کسی رپورٹر نے کیا نصیر ہاشمی صاحب نے کہا تم اسے بہتر انداز میں لکھ دو اس کی اردو اچھی نہیں ہے، یہ کام تو ہوگیا لیکن دوسرا کام بھی ہوگیا ، یعنی ہماری شکایت، خورشید صاحب کے ساتھ نشست ہوٹل مہران میں تھی اتنے لوگ آگئے کہ دونوں ہال بھر گئے، ہوٹل کے پیچھے خالی پلاٹ میں بھی ٹی وی لگا کر کرسیاں رکھ دی گئیں لیکن رش بہت تھا، اتنے رش کو دیکھ کر شکایت ہوگئی اور خفیہ پولیس والے آگئے ، کیا یہاں سیاسی جلسہ ہورہا ہے ؟۔ ہمارے ساتھی مسعود جاوید نے بزعم خود بڑی ہوشیاری دکھائی اور کہا کہ استاد خورشید احمد کو شاہ فیصل ایوارڈ ملنی کی خوشی میں تقریب ہے ، اس کا جواب سن کر ساری دنیا کے پولیس اور ایجنسی والوں کی صلاحیت اور عقل کا پتا چلتا ہے، کہنے لگا اس کو شاہ فیصل ایوارڈ کس نے دیا ، اب اپ سر پیٹیں یا دھنیں لیکن پولیس پولیس ہوتی ہے، اس نے کہا کہ استاد کی تقریر جلدی کرا لو اسے پولیس سٹیشن لے جاکر پوچھ گچھ کرنی ہے، ایک نے تو سٹیج پر جاکر خورشید صاحب سے اقامہ اور پاسپورٹ بھی مانگا، یہ صورتحال منتظمین کے لئے پریشانی کا باعث تھی، مسعود جاوید نے اپنا تعارف منتظم کے طور پر کروایا تھا ان کا فون نمبر بھی لیا تھا ، شرطوں کے جانے کے بعد مختصر میٹنگ میں طے ہوا کہ تمام کارروائی ختم کرکے خورشید صاحب کی تقریر کرا دی جائے اور کھانا شروع کرا دیا جائے ، خورشید صاحب کو فورا مکہ لے جائیں ان کا ہوٹل تبدیل کروائیں، یہ کام ہمارے ذمہ لگا کیونکہ گاڑی ہماری ہی وہاں موجود تھی ، نصیر ہاشمی صاحب کو ساتھ لیا مکہ روانہ ہوئے مسعود جاوید صاحب نے اہل خانہ کو لیا اور عمرے کے لئے احرام باندھ لیا، یہ ترکیب بہرحال کارآمد ہوئی خورشید صاحب کا ہوٹل انہوں نے فون پر تبدیل کرنے کا حکم دیا اور وہاں بتا دیا کہ ہمیں اس ہوٹل سے نئے ہوٹل لے جائیں۔ یہ تو سب دوسری جانب ہو رہا تھا اور ادھر خورشید صاحب کہہ رہے تھے کہ پریشان نہ ہوں اپ لوگ میری وجہ سے اپنی ملازمت کو خطرے میں نہ ڈالیں ، میں گرفتار بھی ہو جائوں تو کوئی پریشانی نہیں مجھے تھانے لے چلیں ورنہ مسعود جاوید کی مصیبت آئے گی ، ہم نے بھی اطمینان سے کہا کہ آپ کی خاطر یہ مہنگا سودا نہیں ہے۔ ہم ہوٹل پہنچے وہاں پہلے سے موجود آدمی گاڑی میں بیٹھا اور ہمیں دوسرے ہوٹل لے گیا ، خورشید صاحب کو محفوظ مقام پر پہنجا کر ہم نے مسعود جاوید کی خبر لی تو پتا چلا کہ انہیں فون کرکے مہمان کا پوچھا گیا اور مکہ اور عمرے کا بتانے پر کہا گیا کہ جہاں ہو رک جا ، چنانچہ وہ رکے رہے پولیس آئی گاڑی کی تلاشی لی یعنی جھانکا کہ کہیں مہمان ان کے ساتھ تو نہیں ، اطمینان ہونے کے بعد جانے دیا لیکن صبح تھانے طلب کر لیا منتظمین اور ہوٹل والوں کو۔ یہاں خورشید صاحب نے بتایا کہ آپ لوگ جائیں اور پولیس کو بتائیں کہ میں ایشئین ڈیولپمنٹ بینک کا مہمان ہوں، میرے بارے میں بینک کے صدر سے معلوم کر لیں کہاں ہوں اور مجھے شاہ فیصل ایوارڈ کیوں دیا گیا، اس کے بعد شاید تھانے اور شرطے میں بھی ہمت نہیں ہوئی، بس ایک ہفتے کے لئے مہران اور دیگر ہوٹلوں میں بڑے اجتماعات پر پابندی لگادی، آخر پولیس کو کارکردگی تو دکھانی تھی۔
خورشید صاحب نے پاکستان واپس پہنچ کر ایک ایک فرد کی خیریت پوچھی ،بہت دعائیں دیں، یہ سلسلہ بہرحال ختم تو عمر فاروق مودودی،نصیر ہاشمی اور اطہر ہاشمی اور ہماری ملازمت کے خاتمے پر ہی ہوا، اس موقع پر بھی خورشید صاحب نے احمد صلاح جمجوم سے بات کی، لیکن ہمارا قونصل خانہ ہی ڈھیلا نکلا۔ پروفیسر خورشید سے اس کے بعد آخری ملاقات اسی وقت ہوئی جب وہ عازم لندن تھے ۔ ان کے بارے میں گاہے گاہے ندیم اقبال ، تنظیم واسطی اور دیگر احباب سے احوال بھی ملتا رہتا تھا، خورشید صاحب ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے بلاشبہ پچاس ساٹھ سال سے زیادہ تحریک اسلامی کے قافلے کے ساتھ گزارے اور بھرپور گزارے، پروفیسر خورشید ان پارلیمینٹیرینز میں سے تھے جو مکمل تیاری کے ساتھ سینیٹ میں آتے تھے، چئیرمین سینیٹ وسیم سجاد اکثر پیچیدہ معاملات میں پروفیسر خورشید سے یہ کہہ کر درخواست کرتے تھے کہ ’’ پروفیسر صاحب اس معاملے میں ایوان کی رہنمائی فرمائیں ‘‘ اور ہمیشہ خورشید صاحب ایوان کو پیچیدہ صورتحال سے نکال لیتے تھے، ان کے مشورے آئین کی روشنی میں سینیٹ کی رہنمائی کے لئے تاریخ اور سینیٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں ، یہاں کسی کی تضحیک اور موازنہ مقصود نہیں لیکن پروفیسر خورشید کے پائے کے پارلیمینٹیرینز اب شاید نہ ملیں اور آج کل جو لوگ پارلیمنٹ میں ہیں ان کے بارے میں تبصرہ سیدھا سیدھا پیکا ایکٹ کی لپیٹ میں لینے والا ہوگا ، بس اتنا ہی تبصرہ بہت ہے ۔
پروفیسر خورشید کا پاسبان کے قیام میں اہم کردار تھا ، جب سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل پاسبان کو جماعت اسلامی سے الگ کرکے اس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے، ان ہی دنوں میں ایک پروگرام کے بعد مختصر ملاقات میں انہوں نے میرے سامنے کہا کہ حمید گل صاحب کو پیغام دے دیں کہ پاسبان کی قیمت پر ان سے کوئی تعاون نہیں ہوسکتا، اس ایک جملے میں غصہ، مضبوطی اور فیصلہ سب جھلک رہے تھے اور لہجہ سپاٹ تھا، شاید اس سے زیادہ غصے میں ان کو کبھی نہیں دیکھا گیا، ترجمان القرآن کے اداریوں نے ہمیشہ 7تحریک کے فیصلوں کی ترجمانی کی اور کارکنوں کو زبان دی ۔ کل نفس ذائقۃ الموت کے مصداق یہ سورج بھی غروب ہوگیا لیکن اپنی روشنی چھوڑ گیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button