Column

گھوڑے اور تلواریں تیار

تحریر : سیدہ عنبرین
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس ٹرین کے اغوا اور اس کے مسافروں کو شناخت کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہم منتظر رہے دنیا کے کس کس کونے سے ہمارے لیے ہمدردی کے پیغامات آتے ہیں، امریکہ اور یورپ کی طرف سے آنے والی ہر آہٹ پر کان دھرے، کئی روز بیت گئے، پھر تمام امیدیں دم توڑ گئیں، ہمارے یہاں تو سرکاری طور پر یہ بعد از تحقیق بھی نہ کیا جاسکا کہ اس تخریب کاری میں کون ملوث ہے۔ آزاد میڈیا اور سول سوسائٹی کی ذمہ دار شخصیات نے اپنا فرض ضرور ادا کیا۔
پہلگام حملے کی تحقیقات شروع ہونے سے قبل سب سے پہلے امریکہ نے اپنا فرض اولین سمجھتے ہوئے دہشتگردی کے معاملے میں بھارت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے، ہم ربع صدی تک دہشتگردی کے معاملات میں امریکہ کے ساتھ کھڑے رہے اور خود دہشتگردی کا نشانہ بنتے رہے، امریکہ نے اپنی سرشت کے مطابق ہمیں جی بھر کے استعمال کیا اور آنکھیں پھیر لیں۔ آج امریکہ کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کا رویہ دیکھ لیجئے، کون کس حد تک ہمارے ساتھ کھڑا ہے، اس سے پہلے اسلامی ممالک کے کردار کی جانچ کر لیجئے، چہار جانب ناامیدی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے پہلگام واقعے کی تحقیقات کیلئے پیشکش کی ہے، اس کے ساتھ ہی میٹھی میٹھی دھمکی بھی دی ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، یہ الگ بات ہے کہ ہماری کمزوریوں کو اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ترقی یافتہ ممالک ہوں یا غیر ترقی یافتہ ممالک، سب خوب سمجھتے ہیں، ہم لاکھ کہیں فلاں معاملے میں ہم خود کفیل ہو چکے ہیں، کوئی نہیں مانتا بلکہ الٹا سوال کرتے ہیں تمہارے پلے ہے کیا، ادھار کے زرمبادلہ کے ذخائر اور ہزاروں ارب ڈالر کے قرض کے علاوہ اگر کچھ ہے تو اس کا ذکر کرو، ہم یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں یہ کہانی پھر سہی۔
اپوزیشن کی ترجمانی کرتے ہوئے جناب بلاول بھٹو زرداری نے واضع کرنے کی کوشش کی کہ دریائے سندھ میں ہمارا پانی بہے گا یا تمہارا خون، ایسی ہی بات نریندر ا مودی نے کی کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا، حالانکہ کشمیریوں کا خون نا حق جس بے دردی سے مودی کے زمانہ اقتدار میں بہایا گیا وہ بھی ایک تاریخ ہے۔
تین مرتبہ کے تراشے گئے وزیر اعظم اور چوتھی مرتبہ کے آرزو مند جناب نواز شریف لندن میں اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلے تو میڈیا ان کا منتظر تھا، وہ تیزی سے اپنی کار کی طرف بڑھے، لیکن میڈیا نمائندوں نے سوال داغ دیا جناب پہلگام واقعے کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔ جناب نواز شریف خاموش رہے اور اپنی کار کی طرف بڑھتے رہے، کار میں بیٹھنے ہی والے تھے کہ ایک رپورٹر نے دوسرا سوال اچھال دیا جناب بھارت جنگ کا ماحول بنا رہا ہے آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے ۔ جناب نواز شریف خاموش رہے، وہ گاڑی میں بیٹھے، انہوں نے سب کو ہاتھ ہلا کر ٹا ٹا کیا اور گاڑی روانہ ہو گئی۔ ہمارے وزیر دفاع نے تو اقرار جرم کرنا ہی بہتر جانا۔ جناب نواز شریف خوب جانتے تھے وہ باہر نکلیں گے تو ان سے یہ سوال ضرور ہو نگے۔ انہوں نے بھارت کے خلاف زبان نہ کھولنے کا تہیہ کر رکھا تھا، پس وہ خاموش رہے، ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں تھے۔
پنجاب کی لیڈر شپ اور لاہور کی آواز بھی کہیں گم ہے، 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو اہل لاہور ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ہاکیاں اٹھا کر محاذ جنگ پر پہنچ گئے، آج کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی، شاید نواسی کی شادی میں مودی کی طرف سے لائی گئی بنارس کی برفی اور دہلی کے لڈوئوں کی مٹھاس اپنا رس گھول رہی ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد کچھ لوگوں کی نیند کھلی ہے، انہوں نے جعفر ایکسپریس واقعے کی تحقیقات کرانے کی بات شروع کی ہے جو کبھی اپنے انجام کو نہیں پہنچیں گی، بالکل اسی طرح جس طرح ہم نے کلبھوشن معاملے کو سرد خانے میں ڈالا ، جعفر ایکسپریس حملہ بھی فریزر میں لگ چکا ہے۔
بھارتی میڈیا میں ایک مسلمان نوجوان عادل شاہ کا کہیں ذکر نہیں ہو رہا جو دہشتگردوں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور سیاحوں کو بچانے کی کوشش کرتا کرتا موت کی وادی میں اتر گیا۔ کوئی بھارتی وزیر، مشیر یا حکومتی نمائندہ اس سے اظہار یکجہتی کرنے اس کے گھر نہیں گیا۔ خفیہ ایجنسی کی ہدایت کے مطابق ایم فور کاربین رائفل کا خوب چرچا کیا جارہاہے، ایسی ہی رائفل بلوچستان میں ٹرین اغوا کرنے والوں نے استعمال کی، پہلگام واقعے میں سیاحوں کی پتلونیں اتار اتار کر چیک کرنے کے بعد انہیں ہلاک کرنے کی کہانی بھی اسی لیے گھڑی گئی کہ واقعے میں مماثلت قائم کی جا سکے اور تاثر دیا جاسکے کہ پہلگام واقعے میں مسلمانوں کا ہاتھ ہے، جن کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ غیر مسلموں سے نفرت کرتے ہیں ، بھارت کے بس میں ہوتا تو وہ کلبھوشن کو پاکستان حکام کی حراست میں آنے کے بعد اس کے ختنے کروا کر مسلمان ثابت کرتا، اسے پشتو یا بلوچی زیان سکھا کر پاکستان علیحدگی پسند ثابت کر دیتا۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنے والوں کو ایک اہم اسرائیلی شخصیت کی طرف سے بھارت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس کے بیان پر غور کرنا چاہیے، جس میں اس نے بھارت سے کہا جس طرح ہم نے غزہ میں فلسطینیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، اسے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے، تمہیں بھی پاکستان کو کھنڈر بنا دیا چاہیے۔ یہ بات قرین از قیاس ہے کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو بھارت کو اسرائیل کی پشت پناہی، انٹیلیجنس معلومات کی فراہمی سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اسلحہ بھی دیا جائے ۔
کنٹرول لائن پر بھارت نے وقفوں وقفوں سے فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جبکہ اڑی سیکٹر میں اپنے بیس کیمپ سے سپاہ کی بڑی تعداد کو نکال کر کافی پیچھے چھپا دیا گیا ہے، انہیں خطرہ تھا کہ کہیں پاکستان ان کا دروازہ کھٹکھٹا نے نہ پہنچ جائے۔ اڑی سیکٹر میں موجود ایک ڈیم اور جموں میں ایک ڈیم پاکستان کے نشانے پر ہے، ان کی حفاظت کیلئے ایکسٹرا فورس تعینات کی جاچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بیشتر سرحدی دیہات خالی کرا لیے گئے ہیں، جہاں بھارت کی طرف سے بھاری اسلحہ پہنچایا جارہاہے، ان میں بھاری آرٹلری توپیں، ملٹی راکٹ لانچر اور دوسرا فوجی سازوسامان شامل ہے۔ سرحد کے دونوں طرف ریڈ الرٹ کی کیفیت ہے، لیکن ایسے میں بھارت کی طرف سے حملہ نہیں ہوگا، وہ کچھ وقفہ لے گا اور جب پاکستان میں یہ فضا بن جائیگی کہ کچھ نہیں ہونا اٹیک اس وقت آئے گا، اچھا کمانڈر اور دانش مند سربراہ مملکت ایسے حالات میں کبھی یہ تاثر نہیں دیتے کہ دشمن کچھ نہیں کریگا یا وہ ایسا حملہ کرنے کی جرات نہیں رکھتا، بلکہ سپاہ اور قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنے کیلئے بتایا جاتا ہے دشمن انتہائی کمینہ ہے اور کسی بھی وقت کوئی بھی حرکت کر سکتا ہے، لہذا جاگتے رہو اور مستعد رہو، قرآن میں مسلمانوں کیلئے گھوڑے اور تلواریں تیار رکھنے کا حکم ہے، تاکہ دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں، انہیں شکست فاش دے سکیں۔ ٹرمپ کے بیان کی غلط تشریح کی گئی، اس کا اشارہ صدیوں سے جاری کفر اور اسلام کی جنگ کے حوالے سے تھا، ہمارے مسخروں نے اس میں مزاح تلاش کر لیا۔

جواب دیں

Back to top button