Column

وزیراعظم کا نہروں کی تعمیر کا کام اتفاق رائے سے کرنے کا فیصلہ

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان شہباز شریف کا نئی نہروں کی تعمیر کے منصوبے کو باہمی اتفاق رائے سے مشروط کرنے اور اس پر کام روکنے کا فیصلہ نہ صرف سیاسی کشیدگی میں کمی لانے کا ذریعہ بنے گا بلکہ یہ وفاقی نظام کے استحکام اور اجتماعی قومی شعور کے ایک نکتے کے طور پر بھی سامنے آیا ہے۔ اس فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ ( ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین جاری ڈیڈ لاک کو خوش اسلوبی سے ختم کر دیا ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد سے ہی پانی کی تقسیم اور آبی وسائل کے مسئلے پر صوبوں کے درمیان شدید اختلافات رہے ہیں۔ 1960ء کا سندھ طاس معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسائل کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سطح کا معاہدہ تھا، جس کے تحت تین دریا بھارت کو دئیے گئے اور تین پاکستان کے حصے میں آئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزیوں اور پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کی کوششوں نے صورتحال کو نازک بنا دیا ہے۔
اندرونِ ملک، نہری نظام، ڈیموں کی تعمیر اور آبی منصوبے ہمیشہ سے سیاسی، معاشی اور ماحولیاتی بحث کا مرکز رہے ہیں۔ ان منصوبوں پر ہونے والی بحثیں اکثر صوبائی تعصبات، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور آئینی تقاضوں کی روشنی میں پیچیدہ صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
وزیر اعظم کا موجودہ فیصلہ وفاقیت کا فہم اور سیاسی بالغ نظری کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعلان کہ نئی نہروں کی تعمیر اس وقت تک شروع نہیں ہوگی جب تک کہ اس پر تمام فریقین کا باہمی اتفاق نہ ہو، دراصل ایک آئینی اور سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔ یہ وہی آئینی روح ہے جو مشترکہ مفادات کونسل، قومی مالیاتی کمیشن (NFC)اور انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA)جیسے اداروں کی بنیاد میں مضمر ہے۔ ان اداروں کا مقصد ہی یہ ہے کہ وفاقی ریاست کے اندر تمام اکائیوں کو ان کے حقوق کے مطابق وسائل کی تقسیم دی جائے اور فیصلے مشاورت سے ہوں۔
وزیر اعظم کا یہ فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اس دیرینہ مطالبے کی بھی تائید کرتا ہے جو وہ صوبوں کے اندر وسائل کی مساوی تقسیم اور فیصلوں میں شمولیت کے حوالے سے کرتی آئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اس پیش رفت کو نہ صرف سراہا بلکہ اس پر اظہار تشکر اور جشن بھی منایا، جو ان کے جمہوری طرز عمل کا عکاس ہے۔
اب جبکہ وزیراعظم کے فیصلے نے سیاسی سطح پر اتفاق رائے کی فضا قائم کر دی ہے تو یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان گروپوں کو بھی اعتماد میں لیں جو ابھی تک سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ خصوصاً پنجاب میں ببرلو بائی پاس پر دھرنا دینے والے وکلا اور دیگر احتجاجی طبقات کو مناسب وضاحت اور دلائل کے ذریعے قائل کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج پانی کی دستیابی کا درپیش ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے اور دریائوں پر مسلسل ڈیم بنانے کی کوششیں پاکستان کو شدید آبی بحران کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ایسے وقت میں آبی منصوبوں پر اتفاق رائے کے بغیر کوئی بھی اقدام نہ صرف اندرونی خلفشار کو بڑھا سکتا ہے بلکہ قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ نہ صرف سیاسی قیادت بلکہ عوامی زندگی کے تمام طبقات باہم اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کریں۔ یہ پانی کی جنگ ہے، ایک ایسی جنگ جسے ہمیں ہر حال میں جیتنا ہے کیونکہ یہ ہماری بقا، خودمختاری اور آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کا یہ فیصلہ وقتی سیاسی مفاہمت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ ایک قومی بیانیے کی تشکیل ہے جس کی بنیاد وفاقی اصولوں، آئینی ذمہ داریوں اور اجتماعی قومی مفادات پر ہے۔ پاکستان ایک ناقابل تسخیر قوم کا ملک ہے اور اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر میدان میں سرخرو ہوکر دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ پاکستانی قوم اپنی زمین، وسائل اور بقا کے لیے متحد ہے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا یہ فیصلہ مستقبل کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ ریاستی سطح پر پالیسی سازی کیسے قومی اتفاق رائے کے ساتھ کی جا سکتی ہے، تاکہ ہم ہر محاذ پر مضبوط اور متحد ہو کر اپنی جنگ جیت سکیں۔

جواب دیں

Back to top button