CM RizwanColumn

پینٹاگون کے خلاف جنگ ضروری

پینٹاگون کے خلاف جنگ ضروری
تحریر : سی ایم رضوان
وہ ایک کہاوت ہے کہ اگر گوشت خراب ہونے کا خطرہ ہو تو نمک اسے اس خطرے سے بچا لیتا ہے لیکن اگر نمک خود ہی خراب ہو جائے تو اسے یا گوشت کو کون بچا سکتا ہے۔ آج کی دنیا کی مثال بھی کچھ ایسی بن گئی ہے کہ اس وقت واحد عالمی سپر پاور امریکہ ہے اور امریکہ خود ہی جنگوں کا چھیڑنے والا اور خود ہی دنیا میں ہر جگہ آگ لگا کر لوٹنے والا کردار ادا کر رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ کس تنازع میں ثالثی اور کس جنگ میں امن کا پیامبر یا ضامن بن سکتا ہے۔ خود امریکہ کا اپنا وجود اور اس کی شروع دن سے ایسی ظالمانہ، بے رحمانہ اور غیر عادلانہ پالیسیاں رہی ہیں کہ اس کے لئے دنیا بھر کے کسی انسان کے دل میں اور کسی ملک کے داخلی کاغذات میں کوئی عزت و احترام نہیں ہے۔ ویت نام سے لے کر فلسطین تک اس کی جارحیت اور بربریت کی شرمناک مثالیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ جھوٹے الزامات لگا کر اور غلط رپورٹیں پیش کر کے اس نے عراق کو تباہ و برباد کیا۔ اس نے روس کی شکست اور افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد افغانستان پر حملہ کیا۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے ہاتھ لاکھوں معصوم مسلمانوں اور انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
جدید انسانی تاریخ میں دو بڑی عالمی جنگوں کے واقعات ملتے ہیں جو پچھلی بیسویں صدی میں ہوئیں۔ پہلی عالمی جنگ جولائی 1914سے لے کر نومبر 1918 تک یعنی چار سال سے زائد عرصہ تک جاری رہی۔ دوسری عالمی جنگ ستمبر 1939 سے 2 ستمبر 1945 تک یعنی چھ سال تک جاری رہی جو تاریخ انسانی کی سب سے بڑی اور ہولناک جنگ تھی جس میں پہلی بار ایٹم بم کا استعمال کیا گیا اور اس جنگ کے مہلک اثرات آج تک جاری ہیں۔ لاکھوں افراد قتل عام بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہوئے۔ اس جنگ کی ابتدا الفرڈ ہٹلر کے ماتحت نازی جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی، اس جنگ سے یورپ تباہ و برباد ہو گیا۔ بیسویں صدی کی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مختلف ممالک کے درمیان محدود پیمانے پر جنگیں جاری ہیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد 1948 میں یورپ اور امریکہ نے مل کر مشرق وسطیٰ میں یہودی ریاست اسرائیل کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس میں ان سب کا اپنا مفاد تھا کہ وہ اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک پر اپنا اثرو رسوخ اور کنٹرول رکھنا چاہتے تھے جس میں ان کو کامیابی ملی۔ امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک اسرائیل کی ہر طرح سے مالی اور دفاعی امداد کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ آج بھی فلسطین کی تباہی کی جا رہی ہے اور مشرق و مغرب میں کوئی بھی امریکہ یا اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ آج ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل اور صرف ایک کروڑ سے زائد آبادی والا ملک پچاس اسلامی اور ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے ممالک پر بھاری اور حاوی ہے۔ آج امریکہ کا پروگرام کافی حد تک کامیاب ہو ہے کہ آج اسرائیل فلسطینیوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھا رہا ہے مگر ماسوائے ایک اسلامی ملک ایران کے کوئی اور ایک اسلامی ملک بھی اسرائیل کے سامنے کھڑا نہیں ہو پا رہا۔ یعنی ابلیس جیت گیا اور انسان ہار گیا۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان متعدد جنگیں ہوئی ہیں جن میں 1948 کی جنگ اس کے بعد پچاس کی دہائی میں سوئز کنال کا بحران 1967 کی عرب اسرائیل کی چھ روزہ بڑی جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں مصر، اردن، شام، اور عراق اسرائیل کے ساتھ لڑے۔ اس جنگ نے مشرق وسطیٰ کا نقشہ ہی بدل دیا جس کی وجہ سے آج تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد 1973 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی جو 19 روز جاری رہی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی جنگیں 1965 اور 1971 میں ہوئیں دو اسلامی ممالک عراق اور ایران کے درمیان 22 ستمبر 1980 سے لے کر 20 اگست 1988 تک طویل جنگ ہوتی رہی، دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کے درمیان تو شروع سے ہی سرد جنگ جاری تھی جو بالآخر امریکہ جیت گیا اور دنیا میں طاقت کا توازن خراب ہو گیا۔ امریکہ اور ویت نام کی جنگ نومبر 1955 سے لے کر اپریل 1975 تک بیس سال جاری رہی، دہشت گردی کے نام پر امریکہ نے افغانستان جیسے غریب ملک پر اکتوبر 2001 میں چڑھائی کر دی۔ یہ جنگ بھی بیس سال اگست 2021 تک جاری رہی۔ بعدازاں جمہوریت اور انسانی حقوق کا نام لے کر امریکہ عراق میں داخل ہوا اور اس مسلم ملک کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ روس نے بھی افغانستان جیسے ملک سے ٹکر لی اور 24 دسمبر 1979 سے لے کر 15 فروری 1989 تک افغانستان سے لڑتا رہا اور بالآخر ناکام لوٹا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ شام جیسے پرامن ملک میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جنگ چھیڑی اور یہ ملک بھی تباہ و برباد ہو گیا۔ ہزاروں افراد کو ملک چھوڑنا پڑا، روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ 22 فروری 2022 کو شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پچھلے سال اکتوبر میں لڑائی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہلاکتوں پر ہر ذی روح کراہ رہا ہے مگر پینٹا گون کی ابلیسیت یہ سب دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ اس ہولناک جنگ میں تادم تحریر 35 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک کر دیئے گئے ہیں اور اسرائیل 10 ہزار سے زائد حماس کے جنگجوئوں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ امریکی بربریت کی کامیابی ملاحظہ ہو کہ اقوام متحدہ اور پرامن طاقت ور ممالک بھی اس جنگ کو ختم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے جنگ بندی پر راضی نہیں ہو رہا۔ اسی سال اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا ہے جس میں ہلاکتیں اور مالی نقصان بھی ہوا اس کا بدلہ لینے کے لئے ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اور سیکڑوں کروز میزائل، ڈرون اسرائیل پر چھوڑے جس سے دنیا ہل کر رہ گئی مگر پینٹا گان ٹس سے مس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ اب یہ تصادم کسی بڑی جنگ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے اور عالمی جنگ بھی چھڑ سکتی تھی مگر کچھ ممالک چین، روس، ترکی کی کوششوں سے فی الحال حالات پر قابو پا لیا گیا ہے مگر امریکہ کیا کرے گا وہ اس پر قادر بھی ہے اور اس کی پالیسی کے اگلی مرحلے کا بھی کسی کو علم نہیں۔ البتہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ انسانیت کی تباہی و تذلیل اور لوٹ کھسوٹ کے سوا کچھ نہیں کرے گا۔ مختصرا یہ کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ اور یورپ آپس میں نہیں لڑتے مگر یہ اپنی چالوں سی دوسرے نسبتاً کمزور ممالک کو آپس میں لڑاتے ہیں اور اپنا اسلحہ بیچ کر دولت کماتے ہیں۔ اب اس کی پالیسی میں ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی زیر زمین معدنی وسائل ہیں وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ابلیسیت سے نہیں بچ سکتے لیکن ساتھ ہی اس ابلیسیت کا تدارک اس طرح سے ہو سکتا ہے کہ دنیا میں آج آٹھ ممالک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایٹمی ممالک کے پاس 13ہزار ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جن کا 90%حصہ صرف امریکہ اور روس کے پاس ہی اور باقی 10فی صد حصہ برطانیہ، چین، بھارت، شمالی کوریا اور پاکستان جیسے ایٹمی ممالک کے پاس ہے۔ اتنی کثیر تعداد میں ایٹمی ہتھیار اور اسلحہ محض اس وجہ سے دنیا بھر میں تیار ہوا ہے کہ امریکہ نے دنیا کا مزاج جنگی کر دیا ہے لیکن خود سب سے بڑا اور خوفناک جنگ جو ہے۔ اس خوفناک وقت کا تقاضہ ہے کہ دنیا کے چند ایک انسانیت سے محبت کرنے والے ممالک مل کر امریکہ کے خلاف ہر سطح، ہر شعبہ اور ہر پہلو سے جنگ شروع کر دیں۔ جس طاقت نے دنیا کا مزاج جنگی کر دیا ہے وقت کے اس ابلیس کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہو گی تو دنیا کی جان جنگوں سے چھوٹے گی ورنہ یہ امریکہ جو دنیا بھر کے انسانوں کا خون چوس چوس کر اب اس قدر خوفناک اژدھا بن گیا ہے کہ اگر آج وہ دنیا بھر کو ہڑپ کر جانے کا ارادہ کر لے تو کوئی اس عفریت سے بچ نہیں سکتا۔ آج دنیا کا کوئی دانشور جو یہ کہتا ہے کہ امن کی خاطر دنیا میں ایٹمی اسلحہ اور ہتھیاروں کو کم کیا جائے تو وہ دراصل امریکی پالیسی کی حمایت کرتا ہے کیونکہ دنیا کا نوے فیصد ایٹمی اسلحہ تو خود امریکی اتحاد کے پاس ہے اور باقی دنیا کا دس فیصد بھی کم کرنے کا ڈول ڈالا جائے گا تو امریکہ کو کون روکے گا جو کہ عظیم ترین شیطان ہے۔ اب چاہئے تو یہ کہ کم از کم اسلامی دنیا کے ایٹمی ہتھیار امریکہ کو تباہ کرنے پر لگا دیئے جائیں تب جا کر کہیں ہم دنیا کو ایک جنت بنانے کا خواب دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یعنی دنیا کو جنگی مزاج بنا دینے والے پینٹا گون کی تباہی وقت کا شدید تقاضا ہے ورنہ تیسری عالمی جنگ کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

جواب دیں

Back to top button