بھارت کا جنگی جنون اور پاکستان

تحریر : خنیس الرحمن
بھارت کی بھی سمجھ نہیں آتی ہے ہر دو تین سال بعد اس کو جنون چڑھتا ہے اور وہ خطے میں گرما گرمی کا ماحول بنا دیتا ہے۔ حال ہی میں سانحہ جنوبی مقبوضہ کشمیرکے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں پیش آیا ہے ۔ یہ سری نگر سے 90کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہاں پہنچنے کے لیے،لمبا چکر کاٹ کر، پلوامہ اور اننت ناگ سے گزرکر جانا پڑتا ہے ۔ پہلگام کی سرد ہوا، اِس کے دلفریب مرغزار اور سر سبزو شاداب پہاڑیاں دُنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بے پناہ دلکشی رکھتے ہیں۔ کشمیری میڈیا کے مطابق 2024ء میں 35لاکھ مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں نے پہلگام میں قیام کیا۔ یوں ہم اِس کی سیاحتی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
22اپریل کی سہ پہر جب پہلگام میں سیاحوں کی چہل پہل تھی، اچانک گولیاں چلیں اور 27سیاح پلک جھپکتے ہی موت کی وادی میں پہنچ گئے۔ زیادہ تر بھارتی سیاح ہی بتائے گئے ہیں۔یہ مقتول بھارتی سیاح بھارت کے دُور دراز علاقوں سے پہلگام آئے تھے۔ مرنے والوں میں بھارتی بحریہ کا ایک افسر، لیفٹیننٹ وِنے ناروال، بھی بتایا گیا ہے ۔آنجہانی ناروال کی شادی ابھی پانچ دن پہلے ہی ہُوئی تھی ۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہنی مون منانے پہلگام آیا تھا۔لیکن اس آڑ میں ایک جوڑے کا ویڈیو کلپ بھی وائرل ہورہا تھا جس کے بعد اس جوڑے کی طرف سے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے جوڑے نے واضح کیا کہ وہ محفوظ ہیں اور غلط معلومات کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے ویڈیو میں بتایا کہ ہم زندہ ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری ویڈیو کو اس طرح کیسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ہم لیفٹیننٹ ناروال کے اہل خانہ سے اپنی گہری تعزیت پیش کرتے ہیں۔ براہ کرم ہماری ویڈیو کا غلط استعمال کرنے والی کسی بھی پوسٹ کی اطلاع دیں۔
پہلگام کے سانحہ نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔حسبِ معمول و حسبِ عادت بھارتی میڈیا، بھارتی سیاستدانوں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پاکستان کی طرف انگشت نمائی کی جارہی ہے ۔بھارت نے تو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی پاکستان سے تلاش کرلیا ۔بھارتی میڈیا نے پاکستان کے معروف مذہبی و سیاسی رہنماء اور ضلع قصور سے حالیہ انتخابات میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے پروفیسر سیف اللہ قصوری کو حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیدیا ۔جس کے بعد ان کا ویڈیو پیغام سامنے آیا جس میں انہوں نے پہلگام حملے کی مذمت بھی کی ۔جہاں تک ہمیں معلوم ہے پروفیسر سیف اللہ قصوری ایک باعمل عالم دین ہیں ،5جلدوں پر مشتمل قرآن کی تفسیر بھی لکھ چکے اور ساتھ میں کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔2018ء میں انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا لیکن ان کی پارٹی کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں کیا گیا اور بعد انہوں نے میاں احسان باری مرحوم کی اللہ اکبر تحریک کو بطور جنرل سیکرٹری جوائن کیا ۔2024ء کے انتخابات سے قبل انہوں نے پاکستان مرکزی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور انہوں نے صوبائی حلقے میں الیکشن بھی لڑا اور بھاری تعداد میں ووٹ بھی حاصل کیے اور اس وقت وہ پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں ۔انہوں نے اپنے حلقے میں خدمت کی سیاست کو فروغ دیا ہے ،لوگوں کے اپنے ڈیرہ پر مسائل حل کرواتے ہیں ،روزگار اسکیم کے تحت لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور ایک انسان دوست شخصیت ہیں اور اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا جس طرح حلقے میں ان کے طرز سیاست کی مقبولیت ہی وہ آئندہ انتخابات میں ایوان کا حصہ بن سکتے ہیں ۔دوسری طرف بھارت کا تو کام ہے انکے ہاں کوا بھی مرے تو اس کا الزام پاکستان پر لگا دیتے ہیں اور کبھی پاکستان کے محب وطن شہریوں کو ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہیں ۔سوائے بوکھلاہٹ کے کچھ بھی نہیں ۔
پہلگام کے اس سانحے کا جہاں بھارتی میڈیا نے منفی اور پراپیگنڈے کا ماحول بنایا وہاں بھارتی حکومت نے بھی پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ۔بھارتی سیکرٹری خارجہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ اٹاری سرحدی چیک پوسٹ ( واہگہ بارڈر) بھی فوری طور پر بند کر دی جائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے درست تصدیق کے ساتھ اسے پار کیا تھا، وہ یکم مئی 2025ء سے پہلے اس راستے سے واپس آ سکتے ہیں۔
بھارت کے ان اقدامات کے پاکستان نے بھی جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔جمعرات کے روز پاکستان کی جانب سے قومی سلامتی کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں ملک کی سول اور عسکری قیادت نے شرکت کی ۔اجلاس میں غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کیا گیا اور بھارت کی جانب سے 23اپریل کو کیے گئے یکطرفہ اقدامات کو سیاسی مقاصد کے تحت غیر منصفانہ، غیر ذمہ دارانہ اور قانونی جواز سے عاری قرار دیا گیا ۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا بھارتی یکطرفہ اعلان مسترد کر دیا، پانی پاکستان کا اہم قومی مفاد ہے اور 24کروڑ پاکستانیوں کی لائف لائن ہے، پاکستان اپنی لائف لائن کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا، پاکستان کی ملکیت کے پانی کا بہائو روکا گیا یا پانی کا بہائو موڑا گیا تو اس کو اس جنگ کا اقدام سمجھا جائے گا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کرے گا، پاکستان اس وقت تک دوطرفہ معاہدے معطل کرنے کا حق رکھتا ہے جب تک بھارت پاکستان میں دہشت گردی سے باز نہیں آجاتا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ واہگہ بارڈر کے راستے سے بھارت سے تمام زمینی آمد و رفت معطل ہوگی، بھارتی شہریوں کو دیے گئے سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے ویزے معطل اور منسوخ کیے جارہے ہیں، اس اسکیم کے تحت پاکستان میں موجود سکھ مذہبی یاتریوں کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔
بھارتی اقدامات کے بعد پاکستان میں بھی انتہائی تشویش پائی گئی اور پاکستان میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ اور سول سوسائٹی کی جانب سے لاہور ،کراچی ،اسلام آباد ،پشاور،گجرات سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جس میں بھارت اقدامات کی پر زور مذمت کی گئی ۔
جمعہ کے روز بھی پاکستان مرکزی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی طرف سے بھی جمعہ کی کال دی گئی۔
بھارت کی طرف سے یہ پہلی بار نہیں ہوا بھارت پہلے بھی فالز فلیگ آپریشن کرتا رہا، کبھی سمجھوتہ ایکسپریس کبھی ممبئی حملہ اور کبھی پٹھانکوٹ جیسے واقعات اور دنیا کے سامنے پاکستان کو ظالم بنانے اور خود ہمیشہ مظلوم بننے کا ڈرامہ رچاتا رہا لیکن ہمیشہ اس کو منہ کی کھانی پڑی ۔کیونکہ یہ بات عیاں ہے بھارت خود ہمیشہ سے پچھلے 76سے زائد سال ہوگئے کشمیر پر قابض ہی اور لاکھوں کشمیریوں کا خون بہا چکا ہے اور گزشتہ پانچ سالوں سے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے دنیا کے سامنے امن قائم کرنے کے دعوے کررہا ہے۔
دراصل اس وقت بھارت اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے فالز فلیگ آپریشن کرکے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوبارہ سے بالا کوٹ جیسا کوئی ایڈوانچر دہرانا چاہتا ہے اور بھارتی سوشل میڈیا بھی بھارت کے کیے گئے اقدامات کو نرم قرار دے کر بھارتی حکومت پر دبا بڑھا رہا ہے کہ وہ پھر سے کوئی ایسا ایڈوانچر دہرائے اور پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی ابھینندن کی چائے کے پھر سے چرچے ہورہے ہیں اور بھارت کو یاد دلایا جارہا ہے ۔پاکستان کی حکومت کو بھی فیصلہ کرلینا چاہیے کسی قسم کی لچک دکھانے کی بجائے اپنا موقف ٹھوس رکھے اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد شملہ معاہدے کی معطلی کو فیصلے کی حد تک رکھنے کی بجائے عملی قدم اٹھائے اسی میں پاکستان کی بقاء اور مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔