دنیا

’امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کیخلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے

نیویارک، واشنگٹن اور امریکا کے دیگر شہروں میں ہزاروں مظاہرین نے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف مظاہروں کے دوسرے بڑے مرحلے میں ریلیاں نکالیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق نیو یارک میں لوگ شہر کی مرکزی لائبریری کے باہر جمع ہوئے، جن کے پاس امریکی صدر کے خلاف تحریر کیے گئے نعروں بینرز تھے، اب بینرز پر ’امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ اور ’ظلم کے خلاف مزاحمت‘ جیسے نعرے درج تھے۔

بہت سے لوگوں نے ٹرمپ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’کوئی آئی سی ای نہیں، کوئی خوف نہیں، تارکین وطن کا یہاں خیر مقدم کیا جاتا ہے‘۔

واشنگٹن میں مظاہرین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ٹرمپ طویل عرصے سے قابل احترام آئینی اصولوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، جن میں مناسب کارروائی کا حق بھی شامل ہے۔

41 سالہ بینجمن ڈگلس نے وائٹ ہاؤس کے باہر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ انتظامیہ ’قانون کی حکمرانی کے تصور اور اس خیال پر براہ راست حملہ کر رہی ہے کہ حکومت کو امریکا میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے روکا جانا چاہیے‘۔

 

ڈگلس نے گزشتہ ماہ گرفتار کیے گئے فلسطینی طالب علم محمود خلیل کی رہائی کا مطالبہ کرنے والا ایک بینر اٹھا رکھا تھا اور کہا کہ ایسے افراد کو ’غیر ملکیوں سے نفرت پھیلانے اور دیرینہ قانونی تحفظ کو ختم کرنے کے لیے ٹیسٹ کیسز‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کی بیٹی اور نیویارک کی 73 سالہ احتجاجی کیتھی ویلی کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک بڑے خطرے سے دوچار ہیں‘ اور نازی رہنما ایڈولف ہٹلر کے اقتدار میں آنے کی کہانیاں یہاں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک بات یہ ہے کہ ٹرمپ ہٹلر یا دیگر فاشسٹوں سے کہیں زیادہ احمق ہیں، اس کیساتھ کھیلا جا رہا ہے، اور ان کی اپنی ٹیم منقسم ہے۔

26 سالہ ڈینیلا بٹلر نے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے سائنس اور صحت کے کاموں کی فنڈنگ میں کمی کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتی ہیں۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی میں امیونولوجی میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے والی وہ ٹیکساس کا ایک نقشہ لے کر جا رہی تھیں، جس میں خسرے کی وبا کے حوالے سے جگہوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔

ٹرمپ کے صحت کے سربراہ رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے کئی دہائیوں تک خسرہ، ممپس اور روبیلا (ایم ایم آر) ویکسین کو آٹزم سے جوڑنے میں غلطی کی۔

بٹلر نے کہا کہ جب سائنس کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو لوگ مر جاتے ہیں۔

انتہائی قدامت پسند ٹیکساس کے ساحلی شہر گیلویسٹن میں ٹرمپ مخالف مظاہرین کا ایک چھوٹا سا اجتماع دیکھا گیا۔

63 سالہ مصنف پیٹسی اولیور کا کہنا ہے کہ ’یہ میرا چوتھا احتجاج ہے، اور میں بیٹھ کر اگلے انتخابات کا انتظار کروں گا، ہم ابھی ایسا نہیں کر سکتے، ہم پہلے ہی بہت کچھ کھو چکے ہیں‘۔

سان فرانسسکو کرونیکل کی رپورٹ کے مطابق مغربی ساحل پر سیکڑوں افراد سان فرانسسکو کے ایک ساحل پر جمع ہوئے اور ’مواخذہ، ہٹائو‘ کے الفاظ لکھے۔

آس پاس موجود دیگر لوگوں نے الٹا امریکی جھنڈا اٹھا رکھا تھا، جو روایتی طور پر پریشانی کی علامت تھا۔

منتظمین کو امید ہے کہ ٹرمپ کے امیگریشن کریک ڈاؤن، سرکاری ایجنسیوں میں ان کی سخت کٹوتیوں اور یونیورسٹیوں، نیوز میڈیا اور قانونی فرموں پر دباؤ کے بارے میں بڑھتی ہوئی ناراضگی کو ایک پائیدار تحریک بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔

ہفتے کے روز ہونے والے مظاہروں کے چیف آرگنائزر گروپ 50501 (جو 50 ریاستوں اور ایک تحریک کے 50 مظاہروں کی نمائندگی کرتا ہے) نے کہا کہ تقریباً 400 مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

اس کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے ’ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کے غیر جمہوری اور غیر قانونی اقدامات کا فوری ردعمل ہیں‘ اور اس نے تمام مظاہروں کو غیر متشدد ہونے پر زور دیا ہے۔

اس گروپ نے ہفتہ کے روز لاکھوں افراد سے شرکت کی اپیل کی تھی، تاہم 5 اپریل کو ملک بھر میں ہونے والے ’ہینڈز آف‘ مظاہروں کے مقابلے میں شرکا کی تعداد کم دکھائی دی۔

جواب دیں

Back to top button