Column

ریلیف کا ڈرامہ اور ترقی کا سفر

تحریر : صفدر علی حیدری
ہمارے سیاست دان جھوٹ بولنے اور بڑے بڑے خواب دکھانے کے ماہر ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے منشور کی بات کی جائے تو شاید ان میں محض لفظوں کا فرق ہوتا ہے۔
یہ حکومت میں آنے سے پہلے ہر بار ایک جیسے دعوے کرتے ہیں
عوام کی تقدیر بدل دیں گے
ملک کو ایشین ٹائیگر بنا کر دم لیں گے
آئی ایم ایف کے چنگل سے ملک کو آزاد کریں گے
ایڈ نہیں لیں گے ٹریڈ کریں گے
سادگی پر عمل کریں گے
وزیر اعظم، وزرا اعلیٰ اور گورنرز کی رہائش گاہوں کو یونیورسٹیوں میں بدل دیں گے
ہر شہری کو انصاف اس کی دہلیز تک پہنچائیں گے
دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے
ملک میں امن قائم کریں گے
مہنگائی کا خاتمہ کریں گے
کرپشن کو جڑ سے اکھاڑیں گے
بے روزگاری ختم کریں گے
روٹی کپڑا اور مکان فراہم کریں گے
بلا سود قرضے دیں گے
صحت کی سہولیات مفت فراہم کریں گے
مفت تعلیم فراہم کریں گے
ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کریں گے
قرضوں سے جان چھڑائیں گے
دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے
اور
اور
اور
آپ کو یاد ہو گا کہ کبھی اس ملک میں کالا باغ ڈیم کا بڑا چرچا تھا۔ اور خوب سبز باغ دکھائے جا رہے تھے۔
اس کے حق میں اور مخالفت میں آوازیں اٹھتی تھیں۔ کہتے ہیں ہمارے دشمن ہمسائے نے اس پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی اور پاکستان کی معیشت پر کاری وار کیا۔ تین صوبے اس کی مخالفت کرتے تھے اور پنجاب اس کا حامی تھا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے کم فائدہ پنجاب کو تھا ۔ ماننا پڑے گا پرویز مشرف نے اس پر بڑا کام کیا۔ بھرپور آواز اٹھائی حتیٰ کہ انھوں نے مخالفت کرنے والوں کو ملک دشمن تک کہا ۔ پی ٹی وی پر ایڈ چلے۔ نوشہرہ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اس کی بلندی دس فٹ تک کم کرنے کی بات ہوئی۔ لگتا تھا اب یہ سبز باغ نہیں رہے گا مگر۔۔ سندھ کے شہری علاقوں کی پڑھی لکھی سیاسی جماعت کے منہ پھٹ سربراہ نے بس ایک دھمکی دی اور مشرف جیسا فوجی آمر گھٹنے ٹیک گیا۔
بتانا یہ مقصود تھا کہ ہمارے یہاں کے سیاست دان جتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہو جائیں، ان کا اقتدار، ان کی کرسی ان سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ اور وہ سارا وقت اسی کو مزید مضبوط بنانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ پھر کرسی اور اقتدار وہیں پڑا رہتا ہے اور وہ خود محروم تماشہ ہو جاتے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیراعظم نے بجا کہا تھا ’’ جو آپ کو اقتدار میں لا سکتے ہیں ، وہ آپ کو گھر بھی بھیج سکتے ہیں‘‘۔
یہاں تو یہ عالم ہے کہ فوجی آمر ایک دھمکی کی مار ہے۔
اس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو ملک اور اس کے عوام سے کتنا پیار ہے اور ان کا کتنا خیال ہے۔
ابھی کل کی بات ہے ایک دوست کو کال ملائی تو کال فوری اٹینڈ کر لی گئی۔ میں بڑا حیران ہوا ۔ یکایک مجھے احساس ہوا کہ آواز کچھ بدلی ہوئی ہے۔ جب ذرا غور کیا تو وہ اپنے وزیر اعظم نکلے، قوم کو اطلاع اور مبارک باد دیتے ہوئے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کر دی گئی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے ملک ترقی کی راہ پر دوڑنے لگا ہے۔
مجھے اچانک وہ اشتہار یاد آ گئے جو میں نے اخبارات چھپے دیکھے تھے۔ جس میں قوم کو یہ معلومات فراہم کی تھی کہ نوے فیصدی لوگ دو سو سے کم یونٹ خرچ کرتے ہیں۔ اور انہی کے لیے بجلی کے یونٹ تین ماہ کے لیے کم کیے جا رہے ہیں مگر ہوا یہ کہ ان کو کوئی ریلیف نہ مل سکا۔ اس سے قبل بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ پنجاب عوام کو یہ بتا کر داد و تحسین وصول کر چکے تھے کہ آپ سب بل ادا کرنے جائیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ کا بل حکومت پہلے ہی ادا کر چکی ہے۔ اس کی بعد یہ ہوا کہ نواز شریف کافی دنوں کے بعد منظر عام پر آئے اور پانچ سو یونٹ تک کی صارفین کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا پھر یہ وعدہ یوں ہوا کہ دو سو ایک سے پانچ سو تک صارفین کو رعایت دی گئی اور یوں غریب عوام کو دونوں بار دھوکہ دیا گیا ۔
اب جب کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نچلی پر چلی گئی ہیں، ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم نہیں کی جا رہیں۔ جب وزیر اعظم سے سوال کیا گیا تو وہ فرمانے لگے کہ ان پیسوں سے بلوچستان میں سڑکیں بنائیں گے۔
گندم اگانے والا کسان مایوس ہے۔ اس کی سونے جیسی گندم خریدی نہیں جا رہی۔ آئی ایم ایف کی غلام حکومت ایسا کوئی کام کرے بھی تو کیسے ۔
اب اخبار کی خبر بتاتی ہے کہ پنجاب حکومت نے پندرہ ارب کے سپورٹ فنڈ سے کسان کو ریلیف ملے گا ۔
اسے ریلیف مت دو
کسان سے اس کی گندم خرید کے دکھائو اگر تم غلام نہیں ہو
ایران سے سستا پٹرول خرید کے دکھائو
یہ ریلیف ہے یا مذاق کہ قیمتیں بڑھاتے جائو اور پھر تھوڑی سا ریلیف کی بھیک دے دو۔
یہ ریلیف بھی کیسا ریلیف ہے کہ سامنے والی جیب میں پیسے ڈالتے ہیں اور سائیڈ والی سے نکال لیتے ہیں۔ ڈالتے دس روپے ہیں نکالتے بیس روپے ہیں۔
خدا را یہ مذاق بند کرو۔ قوم کو بھکاری مت بنائو۔ ترقی کا نام مت لو، کوئی ترقی کی ہے تو ثبوت دو۔ کوئی ڈھنگ کا کام کرو، ڈنگ کا کام نہیں۔ کوئی کام کرو کرنے کا۔۔ اور کام نہیں

جواب دیں

Back to top button