Column

کسان کی ٹوٹتی کمر یا ملکی معیشت کی؟

تحریر : امتیاز یٰسین
ملک کے مختلف حصوں میں فصلِ ربیع کی اہم ترین اور ملک کی بڑی فصل گندم کی برداشت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کٹائی اور تھریشنگ شروع ہو چکی ہے۔ ماضی بعید میں جب گند م کی کٹائی شروع ہوتی تو کسانوں کے چہروں پر خوشی قابل دید ہوتی۔ بوقتِ کٹائی ڈھول پیٹے جاتے، میلے ٹھیلوں کا اہتمام ہوتا ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ کسانوں کو بالخصوص سال بھر کی محنت کا صلہ جو ملنے والا ہوتا، اُس اپنے بچوں کی تعلیم، گھر بوجہ مالی دشواری کے التوا پڑے کام مکمل ہونے والے ہوتے، بچوں کی شادیوں کا اہتمام فصل ربیع کے بعد ہی ہوتے۔ لیکن گزشتہ سال سے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کی ملکی غذائی ضرورت کو پوارا کرنے والی فصل کی سرکاری سطح پر خریداری نہ کی گی اور یہ سلسلہ کسانوں کو مایوسی سے دوچار کئے رواں سال بھی جاری ہے۔ مہنگے ترین زرعی مداخل سے تیار ہونے والی گندم کو کسان اپنی فصل کی تاریخی بے قدری اور کساد بازاری پر حسرت و یاس کی تصویر بنے مالی پریشانیوں کی پرچھائیوں میں گھرا ہے۔ سرکاری سطح پر گندم کے نرخ طے ( امدادی قیمت) نہ ہونے اور عدم خریداری پر کسان اپنی محنت کو مڈل مین اور ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں اونے پونے لٹانے پر مجبور ہے۔ زرعی ٹھیکے دار فصل کے اخراجات نہ ہونے پر اپنا نظام چلانے سے عاجز ہیں۔ گندم سے بننے والی فوڈ آیٹمز کے ریٹ انتہائی بلند سطح پر ہیں جبکہ فیکٹریز کو گندم جیسے ملنے والے خام مال کی سوچے سمجھے سازش کے تحت بے وقعت کر دیا گیا ہے۔ یہ عمل کسان دشمن پالیسیوں کا عکاس ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کی کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ ماضی قریب میں جب گندم کی فصل برداشت کے قریب تھی تو بھاری مقدار سے یوکرین سے منگوا کا کسانوں کی فصل کو بے وقعت کر دیا گیا۔ رواں سیزن میں کسانوں کو گندم کے حوالے سے سہانے خواب دکھا کر بھاری تعداد میں گندم کاشت کرائی گئی جس میں پنجاب میں ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ایکٹر رقبہ پر کاشت ہوئی۔ یوں پاکستان بھر میں 9ملین ہیکٹر رقبہ پر گندم کی کاشت ہوئی۔ کاشتکار نے موسم کی خشک سالی، پانی کی کمی کے باوجود فصل جان جوکھوں سے تیار کی۔ زرعی ماہرین کے مطابق کاشتکار کی فی من چار ہزار روپئے نقد صورت میں پیداواری لاگت ہے جبکہ ادھار کی صورت میں اضافی رقم اور ٹھیکہ جات اس کے علاوہ ہیں۔ ستّر فیصد پاکستانی آبادی کا روز گار زراعت سے منسلک ہے یہ سراسر کسانوں کا معاشی قتل ہے۔ زرعی ادویات، کھادوں، ڈیزل، زرعی مشینری ڈیلرز اور ٹھیکے دار حضرات اپنے قرضوں کی وصولی کے لئے کسانوں کے گھروں کا طواف کر رہے ہیں کسان ایک دانہ گھر میں نہ رکھ کر بھی ان میں کسی ایک کا قرض چکانے کا متحمل نہیں۔ گندم کی ارزانی سے فصل خریف کی کاشت اور تیاری شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ٹھیکہ داروں اور مالک اراضی کے درمیان ریٹس کی پیدا کردہ معاشی ناہمواری کے سبب لڑائی جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔ ماضی میں سرکاری خریداری مراکز جہاں گاڑیوں کی گندم سے بھرے ٹرالیاں، ٹرک قطار اندر قطار کھڑے دکھائی دیتے اب ہو کا عالم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت کسانوں کی لفظوں اور دعوئوں کے برعکس ٹھوس پالیسی اپناتے ہوئے عملی طور پر کسانوں کی سرپرستی کر کے گندم کے نرخوں میں استحکام لائے۔ کسانوں بالخصوص چھوٹے کاشتکار کو رلنے سے بچائے۔ دیر ہونے کی صورت میں چھوٹا کسان اپنے خون پسینے کی کمائی لٹوا بیٹھے گا جبکہ فائدہ سٹاکسٹ اور ملز مالکان اٹھائے گا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button