اختر مینگل کا دھرنا اور عوامی خدمات

تحریر : امتیاز عاصی
ایک زمانے میں سیاست دان عوام کی خدمت اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ دولت کی ہوس نے سیاست دانوں کو عوام سے دور کر دیا سیاسی رہنمائوں نے عوامی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنے پر توجہ دینی شروع کر دی۔1985 ء کے بعد سیاست میں کرپشن نے ایسا رواج پایا جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا گیا۔ کئی عشرے پہلے لوگوں کو نہ سرے محل نہ ایون فیلڈ اور نہ ہی سوئس بنکوں کا پتہ تھا یہ تو بعض سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن کا نتیجہ ہے لوگوں کو بیرون ملک سیاسی رہنمائوں کی جائیدادوں بارے علم ہوا ہے۔ دور آمریت میں احتساب کے نام پر کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے بعد ازاں مقدمات بنانے والوں کو انہی سیاست دانوں کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا جن کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنے تھے۔ کون نہیں جانتا بلوچستان کے بڑے بڑے سرداروں نے اقتدار میں رہتے ہوئے غریب عوام کی پسماندگی دور کرنے کی بجائے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔ بلوچستان کے بعض سیاست دانوں کے پاس دوبئی میں ایسی ایسی گاڑیاں ہیں جو وہاں کے شیخوں کے پاس نہیں ہیں۔ صوبے کے عوام کی پسماندگی کا یہ عالم ہے بہت سے علاقوں میں پینے کا پانی میسر نہیں نہ روزگار اور نہ خاطر خواہ تعلیمی سہولتیں دسیتاب ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے منتخب ہونے کے بعد سیاسی رہنما اپنے صوبے میں رہنے کی بجائے اسلام آباد میں قیام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے وہ عوام کے مسائل سے نابلد رہتے ہیں۔ ہم بی این پی کی بات کریں تو اختر مینگل کے آبائی علاقے وڈھ میں نہ سڑکیں اور نہ پینے کا صاف پانی عوام کو میسر ہے حالانکہ وہ اور ان کے والد محترم سردار عطاء اللہ مینگل صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ بلوچستان میں بدامنی نئی بات نہیں سیاسی رہنمائوں کو مسائل کے حل کے لئے متعلقہ فورم سے بات چیت کا دروزاہ بند نہیں کرنا چاہیے۔ جلسوں ، جلوسوں اور دھرنوں سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ جس کا تجربہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کر چکے ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا اور جے یو آئی نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف دھرنا دے کر دیکھ لیا۔ ایسے وقت جب دہشت گردی عروج پر ہے سیاست دانوں کو دھرنوں سے گریز کرنا چاہیے اور حکومت کا دست و بازو بن کر صوبے میں امن و امان کی راہ ہموار کرنے کے لئے اقدامات میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔ یہ بات درست ہے صوبے میں دہشت گردی کے تانے بانے بھارت اور افغانستان سے ملتے ہیں تاہم وہاں کے لوگوں اور سیاست دانوں کو سیکورٹی فورسز سے بھرپور تعاون کرکے امن و امان کی صورت حال کو ٹھیک کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ علیحدہ بات ہے صوبے کے بعض علاقوں کے چند سو افراد لاقانونیت میں سرگرم ہیں جنہیں مقامی لوگوں کے تعاون سے لگام دی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے دنیا کی نظریں اسی صوبے پر ہیں۔ وفاقی حکومت کو آئین میں دیئے گئے صوبائی حقوق سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہاں کے عوام کو آئین میں دیا گیا حق دینے میں گریز نہیں کرنا چاہیے۔ آج کل منزلز کے معاملے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے وفاق کو آئین کے مطابق تمام صوبوں کے حقوق کا خیال رکھ کر عوام کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ گوادر کا مسئلہ ہو یا ریکوڈک ہو آئین نے جو حقوق وہاں کے عوام کو دیئے ہیں وہ انہیں ملنے چاہیں۔ وفاق کو افغانستان سے آنے والے منشیات کی روک تھام کے لئے ٹھوس حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے آنے والی منشیات بلوچستان کے راستے ایران اسمگل ہوتی ہے جسے ہر صورت روکنے کی ضرورت ہے۔ جے یو آئی کے امیر منزلز بل پر سیخ پا ہیں انہوں نے اعلان کیا ہے وہ اس معاملے میں عوام کے پاس بھی جا سکتے ہیں مولانا صاحب کے پاس سٹریٹ پاور ضرور ہے لیکن وہ گرین سنگل ملنے کی صورت میں ہی مارچ اور دھرنے دیتے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے صوبے کے عوام کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جائے اور وہاں کے لوگوں کے لئے روزگار اور تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جائیں تو حالات بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ منزلز بل کی منظور ی اس صورت ممکن ہے جب صوبائی اسمبلی بل کی منظوری دے گی تب ہی آئین میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ وفاق کو بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کی بجائے رقبے کے اعتبار سے انہیں پیسے دیئے جائیں تو صوبے میں بہت سے ترقیاتی کام کی ابتدا ہو سکتی۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی مسلم لیگ نون کے ادوار میں بہت سے ترقیاتی کاموں کا اعلان کیا گیا جن پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے جس سے صوبے کے عوام کے حکومت پر اعتماد پر ٹھیس پہنچی ہے۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کی خدمات کا ذکر کئے بغیر کالم ادھورا رہ جاتا ہے ان کے آبائی گائوں وڈھ اور سارونہ میں ماسوائے ہائی وے جو کوئٹہ سے کراچی جاتی ہے علاقے میں نہ کوئی پکی سٹرک ہے نہ ہی پینے کے پانی کا انتظام البتہ ایک سرکاری ہسپتال ہے جہاں اگر ڈاکٹر ہو تو لوگ علاج معالجہ کراتے ہیں۔ گرمی کے موسم وہاں گیسٹرو پھیل جاتا ہے جہاں ہر سال تیس چالیس لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ سردار اختر مینگل کے علاقے سے ماربل نکلتا ہے جس کی رائلٹی انہیں مل جاتی ہے۔ کراچی ہائی وے کے قریب ان کے بندے بیٹھے ہوتے ہیں جو چھالیہ، تیل اور منشیات اسمگلنگ کرنے والوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ صحت کی سہولتوں کا عالم یہ ہے غریب عوام کو اتائیوں کو پیسوں کی بجائے بھیڑ بکریاں دے کر علاج معالجہ کرانا پڑتا ہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل اور اختر مینگل دونوں باپ بیٹا صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان کی عوامی خدمات کا یہ عالم ہے غریب عوام کو پینے کا پانی، ہسپتالوں ، سڑکوں اور تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ کیا عوام کی خدمت اسی کو کہتے ہیں؟