پاکستان، بیلا روس تعلقات کی نئی جہت

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
بلاشبہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ وسطی ایشیاء قدرتی وسائل سے مالا مال اور پاکستان کے لیے بے پناہ اقتصادی مواقع کا حامل ہے۔ پاکستان کی گوادر اور کراچی بندرگاہیں بیلا روس سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے ٹرانزٹ حب بن سکتی ہیں۔ ماضی سے زیادہ دونوں ممالک کی نظر مستقبل کی جانب ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان زراعت کے شعبے میں تعاون کی بہت بڑی صلاحیت ہے اور زراعت میں استعمال ہونے والی مختلف قسم کی مشینری بنانے کی لیے مشترکہ پیداوار بھی ممکن ہے۔ پاکستان کی موجودہ سفارتی پالیسی میں تبدیلیوں کو سراہے جانے کے لائق ہے کہ دنیا سرد جنگ کے بعد کافی بدل چکی ہے اور تیزی سے ایک اور دو مرکزی ( یونی پولر اور بائی پولر) کے بجائے کثیر المرکز یعنی ( ملٹی پولر) میں تبدیل ہو چکی ہی۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ پاکستان اور بیلا روس کے درمیان ٹرانسپورٹ اور زراعت کے شعبوں کے علاوہ آڈیٹنگ، موسمیاتی تبدیلیوں، ووکیشنل ٹریننگ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ اسی طرح اس خطے کو گوشت اور ٹیکسٹائل کی برآمدات سے بھی پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے کے مواقع موجود ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک دہائی میں بیلا روس سے پاکستان کا تجارتی خسارہ 33ملین ڈالر سے کم ہو کر 18ملین ڈالر تک آ گیا ہے۔
پاکستان کی بیلا روس کو بھیجے جانے والی اشیاء میں آپٹیکل اور فوٹو گرافک آلات، ملبوسات، کپاس، چھڑا، جوتے اور کھلونے شامل ہیں۔ جبکہ بیلا روس سے پاکستان منگوائی جانے والی اشیاء میں فائبر، لکڑی کے گودے کے علاوہ توانائی کے حصول کے لیے نیوکلیئر ری ایکٹرز بھی شامل ہیں۔ پاکستان بیلا روس کو پانچ ارب ڈالرز تک کی برآمدات کر سکتا ہے، جن میں پلاسٹک کا سامان، پھل، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور دیگر اشیاء بھی شامل ہیں۔ بیلا روسی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے اسپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کی دعوت دی، جو پرکشش مراعات اور تین ارب سے زائد آبادی پر مشتمل منڈیوں تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ توانائی ٹیرف میں کمی کو سرمایہ کاری کے لیے ایک اضافی سہولت قرار دیا۔
وزیر اعظم کا حالیہ دورہ پیلا روس نومبر 2024ء میں صدر لوکاشینکو کے پاکستان کے اہم دورے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان پچھلے چھ مہینوں کے دوران، اعلیٰ سطح پر دو طرفہ تبادلوں کا ایک سلسلہ جاری رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں زرعی اور صنعتی اشتراک کی وسیع بنیادیں موجود ہیں اور قریبی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری جذبہ خیر سگالی بھی بدرجہ اتم موجود ہے، مشترکہ منصوبوں کے لیے چند کلیدی شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ٹیکسٹائل مشینری، زرعی پراسیسنگ، دوا سازی، قابل تجدید توانائی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ای کامرس شامل ہیں۔ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان 2027۔2025ء کے لیے جامع تعاون کے روڈ میپ پر پہلے ہی اتفاق ہو چکا ہے۔ در اصل یوکرین کی جنگ نے پاکستان کی اہمیت کو کئی گنا بڑھایا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں بیلا روس اور وسطی
ایشیا کے کئی ممالک جو روسی حکومت کے قریب سمجھے جاتے ہیں، انھیں امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں ان ممالک کو تجارت کے لیے نئی راہداریوں کی ضرورت ہے اور ان کی نظریں پاکستان پر جاتی ہیں۔ دنیا علاقائی تجارت اور انضمام سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے اور پاکستان کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت سے مواقع ہیں۔ بیلا روس نے روس سے الگ ہو کر بھی اس کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ انھیں مزید گہرا اور ہمہ جہت بنایا ہے جس کا دونوں ملکوں کو اپنی تاریخی، لسانی، نسلی، ثقافتی، سیاسی اور جغرافیائی قربت کی وجہ سے بہت فائدہ ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات بڑے اچھے ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سوویت دور سے ہی بیلا روس کا نام آتے ہی ٹریکٹر کی تصویر ذہن میں ابھر آتی تھی، جو پاکستان بھر کی سڑکوں پر نظر آتے تھے اور ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر پاکستان اور بیلا روس کے تعلقات کی نشو و نما سست روی کا شکار رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں ہمارے سفارت خانے کی عدم موجودگی بھی تھی۔ جب 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت برسر اقتدار آئی تو پاکستان کے بیلا روس اور اس علاقے کے دوسرے ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی۔ خاص طور پر یہ بہتری صدر بیلا روس کے مئی 2015ء میں دورہ پاکستان سے ہوئی۔ اس دورے میں پاکستان اور بیلا روس کے درمیان کوئی دو درجن باہمی اشتراک کے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ بات یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ اسی سال جولائی کے مہینے میں وزیر اعظم نواز شریف نے بیلا روس کا دورہ کیا تھا۔ اور تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہرایا ہے۔
اس دورے میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز بھی تھیں۔ پاکستان نے افغانستان کا روٹ استعمال کیے بغیر ہی روس، وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یورپ کے ساتھ نیا تجارتی راستہ کھول لیا ہے اور اس سلسلے میں نیشنل لاجسٹک سیل نے سنگ میل عبور کرتے ہوئے پہلے کارگو کرغزستان پہنچا دیا۔ روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں تجارت کے لیے پاکستان کی بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ این ایل سی نے کرغزستان کے لیے کارگو کی کامیاب ترسیل کو ممکن کر دکھایا ہے۔ یہ اہم اقدام افغانستان کے روایتی راستے سے منسلک چیلنجوں کے پیش نظر نئے تجارتی راستے بنانے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس سنگ میل کے ساتھ نہ صرف وسطی ایشیائی ریاستوں بلکہ روس اور مشرقی یورپ کے ساتھ بھی نیا تجارتی راستہ کھل گیا ہے۔ اب سی پیک کے ساتھ TIRکے فعال ہونے کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان تجارت مزید مستحکم ہوگی۔ اس منصوبے سے روزانہ تقریباً 1000لڑکوں کے ذریعے تجارت کے نتیجے میں تقریباً 2.5 ملین ڈالر کی بچت ہوگی۔ اس متبادل راستے کی کامیابی پاکستان کی بین الاقوامی تجارت بڑھانے کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ ساتھ ہی پاکستان علاقائی اور عالمی تجارت میں ایک فعال رکن کے طور پر ابھرے گا۔ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بہتر سے بہتر روڈ انفرا سٹرکچر چاہتا ہے کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان کی اولین ترجیح ہے جو معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف اور بیلا روس کے صدر لوکا شینکو کے مابین بیلا روس کے ایوان آزادی میں ہونے والی ملاقات میں الیکٹرک گاڑیوں، بسوں کی تیاری اور غذائی تحفظ کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کے علاوہ دفاع، تجارت اور ماحولیاتی تحفظ سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے مختلف معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کئے گئے، دونوں رہنمائوں نے پاکستان اور بیلا روس کے مابین تعلقات کے تمام پہلوئوں میں حالیہ مثبت پیش رفت پر اطمینان کا اظہار اور باہمی فائدہ مند تعاون، اقتصادی و تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں بیلا روس کے صدر الیگزینڈ رلوکا شینکو کا کہنا تھا کہ بیلا روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے، دونوں ممالک میں مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے وسیع مواقع موجود ہیں اس دورے سے دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت ملے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، بیلا روس کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع اور سازگار ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ بیلا روس کی زرعی آلات اور مشینری میں بھی بڑی مہارت ہے، زرعی پیداوار بڑھانے کے لئے تعاون کے خواہاں ہیں ا ور ان کے تجربات سے استفادہ کریں گے، پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں اس حوالے سے بھی تعاون اور شراکت داری کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے دورہ بیلا روس کے دوران دونوں ملکوں کے مابین الیکٹرک گاڑیوں، بسوں کی تیاری اور غذائی تحفظ کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کے علاوہ دفاع، تجارت اور ماحولیاتی تحفظ سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ مشرقی یورپ کا اہم صنعتی ملک بیلا روس توانائی کی دولت سے مالا مال اور ہیوی مشینری مینوفیکچرنگ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ بیلا روس کی سرحد مشرق اور شمال مشرق میں روس، جنوب میں یوکرین، مغرب میں پولینڈ اور شمال مغرب میں لتھوانیا اور لٹویا سے ملتی ہے۔ بیلا روس یوریشین اکنامک یونین ( پہلے یوریشین اکنامک کمیونٹی) اجتماعی سلامتی معاہدے کی تنظیم 1998ء سے بین الاقوامی غیر وابستہ تحریک اور تنظیم برائے سلامتی کا رکن ہے۔ بیلا روس کے بین الاقوامی معاہدے امریکی ہیلسنکی کمیشن کے مینڈیٹ کے تحت نگرانی کے تابع ہیں۔ ترقی پذیر ملک بیلا روس اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے اشاریہ میں 60ویں نمبر پر ہے، انسانی ترقی کے انڈکس پر اس کی پوزیشن بہت اچھی ہے، یہ دنیا کے سب سے زیادہ سماجی مساوات والے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان 1991ء میں سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد بیلا روس کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہے، مگر دونوں ملکوں کی اعلیٰ سفارتی تعلقات کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ پہلی بار مئی 2015ء میں بیلا روس کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اسی سال 10اگست کو وزیر اعظم نواز شریف نے بیلا روس کا دورہ کر کے دونوں ملکوں کے مضبوط دو طرفہ تعلقات کی بنیاد رکھی۔