قلم کی بے حرمتی ایک فکری ماتم

تحریر : شازیہ بیگ
قلم ایک مقدس امانت ہے، اور جو اس امانت کا پاس نہ رکھے، وہ صرف ایک لکھاری ہی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا مجرم بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور کے بیشتر ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے نہ صرف قلم بیچا، بلکہ اپنے ضمیر کو بھی نیلام کر دیا۔ آج کا پاکستانی ٹی وی ڈرامہ، جو کبھی اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ ہوا کرتا تھا، اب صرف جذبات فروشی، شہوت پرستی اور مادہ پرستی کا ہولناک آئینہ بن چکا ہے۔
کبھی ڈرامہ ناظرین کے ذہنوں کو روشن کرتا، شعور جگاتا، اور معاشرتی مسائل پر سوچنے کی ترغیب دیتا تھا۔ آج وہی ڈرامہ ناظرین کے ذہنوں کو مائوف، جذبات کو آلودہ اور اقدار کو پامال کر رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ’’ وارث‘‘، ’’ ان کہی‘‘، ’’ دھند‘‘، اور ’’ تنہائیاں‘‘ جیسے ڈرامے انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے تھے۔ اب ہر ڈرامہ کا پلاٹ ایک ہی دائرے میں گھومتا ہے: لڑکی، عشق، دولت۔ ڈرامے کا مقصد اب صرف رومانس، سازشیں اور فیشن شو رہ گیا ہے۔
کیا یہ ہمارے معاشرے کے اصل مسائل ہیں؟ کیا غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت، انصاف، اور مذہبی و اخلاقی اقدار ہمارے سماج کا حصہ نہیں؟ کیا قلم کاروں کی آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں یا ان کا ضمیر چند سطروں کے معاوضے میں دفن ہو چکا ہے؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ اب تخلیق کار، تخلیق کے بجائے تجارت کے غلام بن چکے ہیں۔
ڈرامہ اب تربیت نہیں دیتا بلکہ بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ ہر کردار یا تو بے حیائی کا مظہر ہوتا ہے یا دولت کا پجاری۔ لڑکیاں اپنی عزت کو سودے میں ڈالتی ہیں، اور لڑکے دولت کے پیچھے اندھے ہو کر حیوانیت پر اتر آتے ہیں۔ جب کرداروں کی سوچ ہی سطحی ہو، تو ناظرین سے کیا توقع رکھی جائے؟ سکرین پر دکھایا گیا ہر منظر، ہر مکالمہ، ذہنوں میں نفسیاتی نقوش چھوڑتا ہے، اور جب یہ نقوش منفی ہوں، تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔
ڈرامہ نگاروں کو اب صرف ریٹنگ کی فکر ہے۔ جو موضوع زیادہ بکتا ہے، وہی دکھایا جاتا ہے۔ یہ نام نہاد ’’ ماڈرنزم‘‘ درحقیقت ایک فکری دیوالیہ پن ہے۔ دوپٹہ پہلے سر سے کندھے پر آیا، پھر گردن میں جھولتا رسی بن گیا، اور اب تو فیشن کے نام پر غائب ہی ہو گیا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ معاشرے کی خواتین نے بھی اسی تقلید میں اپنا وقار داؤ پر لگا دیا۔ میڈیا کے زہریلے اثرات نے تہذیب اور روایات کا جنازہ نکال دیا ہے۔
آج کے نوجوانوں کے دل و دماغ میں اگر بے راہ روی، خودغرضی، اور خواہشات کی غلامی در آئی ہے، تو اس کا ایک بڑا سبب ڈراموں میں دکھائی جانے والی غیر حقیقی، مصنوعی اور منفی زندگی ہے۔ وہ لڑکی جو روز موبائل پر یہی دیکھتی ہے کہ کس طرح ایک لڑکی امیر شخص سے محبت کر کے ’’ کامیاب‘‘ ہو گئی، اس کے دل میں بھی وہی خواب پنپنے لگتے ہیں۔ اور وہ لڑکا جو ہر ڈرامے میں عورت کو بے وفا، یا دولت کی پجاری کے روپ میں دیکھتا ہے، وہ عزتِ نسواں کے تصور سے ہی متنفر ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ڈراموں کا اثر نہیں؟ جب سکرین پر صرف دکھاوا، بے راہ روی اور لالچ کو کامیابی کی علامت کے طور پر پیش کیا جائے گا، تو نوجوان نسل کا ذہن کیسے صاف اور کردار کیسے مضبوط ہو گا؟۔
ایک وقت تھا جب ڈرامہ ایک سماجی آئینہ تھا، آج وہ آئینہ دھندلا ہو چکا ہے۔ اب اس میں صرف خواہشات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ معاشرتی حقیقتیں، طبقاتی ناانصافیاں، تعلیمی بحران، مذہبی افراط و تفریط، خواتین کا استحصال، بچوں سے زیادتی جیسے سنگین موضوعات اب سکرین سے غائب ہیں، کیونکہ وہ ’’ بکنے‘‘ والے موضوعات نہیں ہیں۔ اب صرف وہی دکھایا جاتا ہے جو اشتہار دہندگان اور چینل مالکان کی تجارتی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہو۔
یہ المیہ صرف ڈرامہ نگاروں تک محدود نہیں، پروڈیوسر، ہدایت کار، حتیٰ کہ اداکار تک اس بازار کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب ڈرامہ تحریر نہیں ہوتا، تیار کیا جاتا ہے۔ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت، ایک خاص ذہن سازی کی خاطر۔ جب تخلیق کار خود سوچنے کے بجائے سوچ خریدنے لگے، تو سماج زوال کا شکار ہوتا ہے۔ اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔
لکھاری کا اصل کام معاشرے کے نبض شناس کی حیثیت سے انجام دینا ہوتا ہے۔ وہی معاشرے کے دکھ درد کا گواہ ہوتا ہے، وہی ان پر آواز بلند کرتا ہے، لیکن آج کے بیشتر لکھاری صرف کی بورڈ کے ملازم بن چکے ہیں۔ وہ قلم نہیں اٹھاتے، بس ڈرامہ تیار کر کے فائل بھیج دیتے ہیں۔ جس میں نہ فکر ہوتی ہے، نہ مقصد، نہ پیغام۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل قلم، اہل فکر، اور اہل نظر لوگ اس اخلاقی گراوٹ کے خلاف علم بغاوت بلند کریں۔ ہمیں ایسے ڈرامے درکار ہیں جو کردار سازی کریں، جو نوجوانوں کو خوابوں کے جال سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لائیں۔ جو عورت کو محض ایک جسم یا جذبات کا پتلا دکھانے کے بجائے، اس کے ذہن، اس کی جدوجہد، اس کی عظمت کو اجاگر کریں۔
یہ کام کسی اور کا نہیں، خود قلم کار کا ہے۔ معاشرے کا نقیب وہی ہوتا ہے جو معاشرے کی روح سے جُڑا ہو۔ اگر ہم نے اس زوال پذیر میڈیا کا راستہ نہ روکا، تو ہمارا کل صرف پچھتاووں سے عبارت ہو گا۔
آج کا ٹی وی ڈرامہ صرف ایک تفریحی ذریعہ نہیں، بلکہ ایک فکری ہتھیار بھی بن چکا ہے لیکن افسوس، یہ ہتھیار اپنے ہی معاشرے کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔۔۔۔