بیرونی سرمایہ کاری اور اوورسیز کنونشن

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے حکومتیں کس طرح بروئے کار آتی ہیں، ان کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں، لائحہ عمل کیسا ہوتا ہے؟ سرمایہ کاری کے لئے فضا کیسی ہوتی ہے، یہ حقائق اظہر من الشمس ہیں اور روز ازل سے کہیں یا دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھیں، حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی ریاست کی مضبوطی و عالمی سطح پر کردار کا ایک بنیادی ستون بہرطور اس کی معاشی حیثیت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر اقوام عالم میں ایسی ریاستیں موجود ہیں کہ جن کی معاشی و عسکری صورتحال قطعا ایسی نہیں کہ انہیں اقوام عالم میں کوئی حیثیت دی جا سکے اور ایسی ریاستوں کا مقام طفیلی ریاستوں سے زیادہ نہیں ہوتا جبکہ عالمی نقشے پر معدودے چند ریاستیں ایسی ہیں، جن کا اثر و رسوخ مسلمہ ہے اور چند ایک ریاستیں ایسی ہیں کہ جن کا جغرافیائی محل وقوع اور زیر زمین معدنیات کے باعث ان کی اہمیت بہرطور موجود ہے۔ یہ الگ بات کہ جغرافیائی محل وقوع سے کوئی ریاست کتنی مدت تک فائدہ اٹھا سکتی ہے کہ عالمی حالات بدلتے دیر نہیں لگتی مراد ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں جبکہ زیر زمین معدنیات کے حصول میں عالمی طاقتوں اور ترقی یافتہ ممالک کا رویہ کیا ہوتا ہے، ان معدنیات کے حصول میں وہ کس طرح معاملات طے کرتی ہیں، ریاست کو ان معدنیات سے کتنا فائدہ ہوتا ہے اور عالمی طاقتیں ان معدنیات کا کتنا حصہ سمیٹتی ہیں۔ گو کہ چین اس وقت، اعدادوشمار کے مطابق، نایاب معدنیات کے حوالے سے انتہائی زیادہ خودکفیل ہے، نہ صرف ان معدنیات کو نکالنے میں مہارت رکھتا ہے بلکہ ان معدنیات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صنعت کو فلک بوس ترقی دے رہا ہے اور دنیا بھر کو یہ معدنیات فروخت بھی کرتا ہے۔ دوسری طرف ایسے ممالک بھی ہیں کہ جن کے پاس معدنیات کے ایسے ذخائر کثیر مقدار میں دریافت ہو چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے، ان ممالک کے پاس وہ مہارت و ٹیکنالوجی موجود نہیں کہ وہ ان معدنیات کو ازخود زمین سے نکال سکیں اور ان سے فائدہ اٹھا سکیں، اس کمزوری کا فائدہ بہرحال ترقی یافتہ ممالک ہی اٹھاتے ہیں لیکن اس میں بھی اہم سوال یہی ہے کہ کیا ان ممالک کی قیادت، اتنی اہل ہے کہ ان کانوں سے معدنیا ت نکالنے کا سودا، ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں ؟یا ان کی اہلیت اس قدر ہے کہ ان کانوں میں موجود معدنیات کی حقیقی قیمت کا اندازہ ہی کر سکیں اور ان کا سودا کرتے ہوئے، لاعلمی میں یا لالچ میں ملکی مفادات کو ٹھیس نہ پہنچائیں؟ بدقسمتی سے اس کا مظاہرہ پاکستانی قیادت، ریکوڈیک سے سونا نکالتے وقت کر چکی ہے کہ انہیں علم ہی نہیں کہ زیر زمین اللہ نے پاکستان کو کیا نعمت عطا کر رکھی ہے اور اس سے کس طرح ملک کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، ذاتی مفادات کی لالچ میں کئے گئے سودے سے ملکی مفادات کو نہ صرف معاشی طور پر نقصان پہنچایا گیا بلکہ تاخیر اس میں مزید نقصان کا سبب بنی ہے۔
بہرکیف، ان حقائق سے قطع نظر، تیسری دنیا کے ممالک کی بنیادی ضرورت اس وقت اپنے ممالک میں بیرونی سرمایہ کاری کا حصول ہے تا کہ دور حاضر میں، اپنی معاشی حیثیت کو مستحکم کیا جا سکے، عوام الناس کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں، ان کے لئے خوشحالی کے راستے کھولے جائیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں بنیادی ترجیحات کی عدم موجودگی میں، یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار، کسی دوسری ریاست میں جا کر سرمایہ کاری تاوقتیکہ اس کے پاس وافر سرمایہ ہو اور دوسری ریاست اس سرمائے کے تحفظ میں مکمل یقین دہانی کرائے، اس ریاست کی امن و امان کی صورتحال مکمل کنٹرول میں ہو، مقامی مزدوروں کی اجرت کم ہو، مقامی سطح پر کم از کم مہارت کے حامل افراد سستے داموں دستیاب ہوں، صنعتی پہیہ کو مسلسل متحرک رکھنے کے لئے وسائل موجود ہوں بلاوجہ تعطل کا شکار نہ ہوں، ان لوازمات کی موجودگی، بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے، بصورت دیگر ان لوازمات کی عدم موجودگی کے علاوہ سرکاری ’’ سرخ فیتہ ‘‘ یا ’’ بھتہ خوروں‘‘ کی موجودگی بیرونی تو کیا مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی مجروح کر دیتی ہے اور سرمایہ ریاست سے نکل جاتا ہے۔ پاکستان کو پچھلی کئی دہائیوں سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ مقامی سرمایہ کار، ان مشکلات کے باعث اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر چکا ہے، مقامی صنعت آخری سانسیں لے رہی ہے کہ مقامی صنعتکار کے لئے کساد بازاری کا وہ ماحول بن چکا ہے، جس میں وہ عالمی صنعتکار کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ سونے پہ سہاگہ پاکستانی اشرافیہ کا بے حسی کا رویہ ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کی بجائے، پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبائے جار ہی ہے، مہنگے قرضوں کے حصول میں ملکی اثاثہ جات کو گروی رکھواتے ہوئے، بذریعہ کمیشن اپنی تجوریوں کو بھرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ پاکستانیوں کے لئے زندگی ہر گزرتے دن اجیرن ہوتی جارہی ہے۔ ستر کی دہائی میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں، مقامی صنعتوں کو قومیانے کے بعد، افرادی قوت کو بیرون ملک روزگار دلوانے تک، ملکی معیشت بہرطور مکمل طور پر بھرکس نکلنے سے بچ گئی لیکن اس عرصہ میں عالمی منڈیوں میں ’’ میڈ ان پاکستان‘‘ کی مہر مصنوعات سے بتدریج ختم ہوتی گئی۔ پاکستان نے اپنی
مصنوعات کی بجائے افرادی قوت درآمد کرنا شروع کر دی اور اپنی معیشت کی بنیاد اس ترسیل زر پر استوار کرنا شروع کر دی یا پھر دوسری بنیاد بطور ’’ فرنٹ لائن سٹیٹ‘‘ منتخب کر لی۔ موخرالذکر بنیاد بھی اب حالات کے جبر میں اپنی موت آپ مرتی دکھائی دے رہی ہے کہ عالمی طاقتوں کا لائحہ عمل اب بدل چکا ہے اور پراکسی وار کی بجائے، عالمی طاقتیں براہ راست ایک دوسرے سے کہیں مذاکرات کرتی دکھائی دے رہی ہیں تو کہیں ایک دوسرے پر ٹیرف کا نفاذ کرتی دکھائی دیتی ہیں، یوں پاکستانی معیشت کا وہ دوسرا راستہ بظاہر بند دکھائی دیتا ہے۔ بہرکیف، تارکین وطن کی ترسیلات زر کا دروازہ بھی ہم اپنی حماقتوں سی بند کرنے پر تلے ہیں کہ کویت عرصہ دراز سے ہم پر ویزوں کے دروازے بند کر چکا ہے، یو اے ای نے بھی ویزے بند کر دئیے ہیں جبکہ سعودی عرب جیسے برادر ملک کو بھی ہماری حرکتوں کے باعث فی الوقت عارضی طور پر ویزے بند کرنا پڑے ہیں کہ ہم وزٹ ویزا پر سعودی عرب جا کر، غیر قانونی طور پر حج ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس ضمن میں موسمی سختیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے، بزرگ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جن کی تصاویر و ویڈیوز، پاکستانی انتہائی جوش و خروش سے بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے، سعودی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، اس کے انتظامات پر انگلی اٹھا کر، اس کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم جو کاوشیں سعودی حکومت تین سے چار ملین زائرین کے لئے کرتی ہے، اس سے دانستہ صرف نظر کرتے ہیں، لہذا سعودی حکومت نے رمضان سے قبل ہی جن قومیتوں کے لئے سیاحتی ویزوں کو بند کیا ہے، ان میں پاکستان بھی ، انہی وجوہات کی وجہ سے شامل ہے۔ علاوہ ازیں! جب ہمارے حکمران خود کو بھکاری تسلیم کرنے میں عار نہیں سمجھتے تو شہریوں کو رمضان و حج میں سرعام بھیک مانگتے کیا امر مانع ہے، خواہ سعودی حکومت بارہا اس کی روک تھام کے لئے کہہ چکی ہو۔
خیر یہ بدنما حقائق اپنی جگہ، پاکستانی معیشت کو آئی ایم ایف، امریکہ و چین کے سامنے گروی رکھنے کے بعد، تارکین وطن پر ٹیکسوں کی بھرمار کے بعد، کس قدر ڈھٹائی کے ساتھ، پاکستانی حکومتیں اوورسیز کنونشن منعقد کرتی ہیں جس میں بظاہر تارکین وطن کے مسائل پر گفتگو کا عندیہ دیا جاتا ہے، تجاویز مانگی جاتی ہے لیکن عملا رتی برابر عمل ممکن نہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں کی منظوری کے بغیر یہ ممکن نہیں، البتہ بیشتر تارکین وطن کے مسائل، جو پاکستان میں عزیز و اقارب و دوست احباب کی بدنیتی و بد طینت سے جنم لیتے ہیں، ان کا تدارک کرنے کے لئے بھی حکومتیں ناکام ہی نظر آتی ہیں۔ تاہم ایسے کنونشن میں بالعموم ملکی معیشت کا رونا رو کر صاحب حیثیت تارکین وطن کو سرمایہ کاری کے لئے قائل کرنے کی کوشش بھی نظر آتی ہے، جو بہرطور اس لئے فائدہ مند نہیں کہ تارکین وطن کی اکثریت پہلے ہی اپنی حیثیت کے مطابق سرمایہ کاری کر چکی ہوتی ہے، لیکن یہ سرمایہ کاری بہرطور ملکی معیشت میں وہ اثر نہیں رکھتی، جس کی ملکی معیشت کو ضرورت ہے۔ ذاتی کاروبار جیسے کوئی پلازہ، یا ہوٹل یا ریسٹورنٹ، اس سے ملکی معیشت میں تیزی نہیں آتی جب تک صنعت نہ لگے، جس کے لئے بہرطور حالات سازگار نہیں۔ ایسے کنونشن میں بالعموم، حکومتیں اپنی ہی سیاسی جماعت کے کارکنان کو، سرکاری خرچ پر مدعو، کرتی ہیں اور اس آڑ میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی جاتی ہے، ایس اے ایف سی جیسے محکمہ کا تعارف کرایا جاتا ہے، اس کو ’’ چلانے والوں‘‘ کو تارکین وطن کے سامنے کھڑا کیا جاتا گو کہ معیشت کی بحالی ان کا کام ہرگز نہیں لیکن یہ پاکستان ہے، اور وزیراعظم ان کے قدموں میں بیٹھنے کو اپنے لئے سعادت سمجھیں تو اس سے اصل ’’ حکمرانوں‘‘ کا ادراک ہو جاتا ہے، لہذا معیشت کی بحالی بھی ان کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ یوں مقروض ترین حکومت پاکستان کی جانب سے، سرکاری خرچ پر تارکین وطن کا ’’ کامیاب کنونشن‘‘ منعقد کروا کر، سرمایہ کاری کی ’’ ناکام کوشش‘‘ ہی کی ہے۔