ColumnImtiaz Aasi

حج سے محروم رکھنے کا ذمہ دار کون؟

تحریر : امتیاز عاصی

حج امور سے متعلق لکھنے اور حج انتظامات سے کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ رہتے ہوئے اس ناچیز نے مشاہدہ کیا ہے سعودی حکومت حج ختم ہوتے ہی اگلے حج انتظامات کی تیاریوں میں مصروف عمل ہو جاتی ہے جو سعودی حکومت کی کامیابی کا راز ہے۔ رجب میں سعودی وزارت حج دنیا کے تمام حج مشن کو سعودی عرب آنے کی دعوت دیتی ہے تاکہ حجاج کی تعداد اور مشاعر مقدسہ کے انتظامات پر گفت و شنید ہو سکے۔ گزشتہ سال سعودی وزارت حج اور مذہبی امور کے حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت میں جن امور کو حتمی شکل دی گئی ان میں پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کو منی اور عرفات کے واجبات بھیجنے کی تاریخ کا تعین کیا گیا جس کے بعد وزارت مذہبی امور کو چاہیے تھا فوری طور پر حج گروپ آرگنائزروں کو عازمین حج کی بکنگ کی اجازت دے دیتی تاکہ وہ عازمین حج سے وصول ہونے والے حج واجبات سے زرمبادلہ کا بندوبست کرکے سعودی عرب بھیج سکتے۔ بدقسمتی سے مذہبی امور نے پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کو سعودی حکومت کے ساتھ ہونے معاہدے کے کئی ماہ بعد عازمین حج کی بکنگ کی اجازت دی۔ یہ علیحدہ بات ہے بعض ٹور آپرٹیروں نے اپنے وسائل سے زرمبادلہ کا بندوبست کرکے سعودی وزارت حج کو بھیجنے کے لئے رقوم پاکستان حج مشن کو سعودی عرب بھیج دی۔ اس دوران ریگولر اسکیم کے عازمین حج سے درخواستیں لینے کا کام شروع ہو گیا اور وزارت مذہبی امور کے سعودی عرب میں حج مشن نے منی میں زون اے جو گزشتہ کئی برسوں سے پرائیویٹ اسکیم کے عازمین حج قیام کرتے تھے ریگولر اسکیم کے عازمین حج کے لئے حاصل کر لی گئی۔ بادی النظر میں وزارت مذہبی امور نے ریگولر اسکیم والے عازمین حج کو زون اے میں جگہ دلوا کر کوئی غلط کام نہیں کیا کیونکہ پرائیویٹ اور سرکاری اسکیم میں جانے والے عازمین حج پاکستانی ہوتے ہیں۔ سوال ہے وزارت مذہبی امور نے پرائیویٹ گروپ لے جانے والوں کو بکنگ کی اجازت کئی ماہ کی تاخیر سے کیوں دی؟ پاکستانی عازمین حج کو جن مشکلات کو آج سامنا ہے وہ وزارت مذہبی امور کا کیا دھرا ہے۔ اصولی طور پر حج پالیسی کا اعلان ہوتے ہی دونوں اسکمیوں کے عازمین حج سے درخواستیں لینے کا کام شروع ہو نا چاہیے جو نہیں کیا گیا جس کی وجوہات مذہبی امور کے حکام جانتے ہیں۔ حج زندگی میں ایک بار فرض کیا گیا ہے جو لوگ عمر بھر کی کمائی سے کچھ نہ کچھ بچت کرکے حج کی سعادت کا قصد کرتے ہیں اس بات کی کیا گارنٹی ہے وہ اگلے سال زندہ ہوں گے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سعودی حکام سے بات چیت کرکے دس ہزار عازمین حج کا کوٹہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو کام وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری تھی وزیر خارجہ کو کرنا پڑی ہے۔ سعودی حکومت کے ساتھ واجبات بھیجنے کی تاریخ کا تعین کرتے وقت اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا جب پرائیویٹ اسکیم کے عازمین حج کی بکنگ کی اجازت کئی ماہ کی تاخیر سے دی گئی تو حج مشن میں کام کرنے والے افسران کو چاہیے تھا وہ اپنی وزارت کو پرائیویٹ اسکیم والے عازمین حج کی بکنگ کی بروقت اجازت دینے کی تجویز دیتے۔ سعودی حکومت نے حج ختم ہونے کے تیسرے روز حج پالیسی کا اعلان کر دیا تھا۔ پرائیویٹ گروپ لے جانے والوں کو بکنگ کی اجازت دس جنوری کو دی گئی اور پرائیویٹ گروپس آرگنائزروں کو پیکیج مزید تاخیر سے دیئے جانے سے ٹور آپرٹیر عازمین حج کی بکنگ میں تاخیر کا شکار ہوئے۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد سعودی عرب جانے سے محروم رہ گئی ہو۔ وزارت مذہبی امور میں مبینہ بدانتظامی کی وجہ سے اسٹیٹ بنک نے گروپ آرگنائزروں کو پانچ سو عازمین حج کے لئے جیتنا زرمبادلہ بھیجنے کی اجازت دی دو ہزار کے کلیسٹر کے لئے بھی اتنے ہی زرمبادلہ کی اجازت دے کر ٹور آپرٹیروں کے لئے مشکلات پیدا کیں۔ اصولی طور پر زرمبادلہ کی حد مقرر کرنے کے لئے مذہبی امور کے حکام کو چاہیے تھا وہ کلیسٹر کے مطابق زرمبادلہ کی رقوم بھیجنے کی اجازت لے کر دیتے لگتا ہے وزارت مذہبی امور پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کے ساتھ تعاون سے گریزاں ہے۔ چلیں ٹور آپرٹیروں پر کوئی شرط رکھنا مقصود ہو تو اس سے انہیں بروقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ وزارت مذہبی امور کے حکام کو اس بات کا اچھی طرح ادارک ہے سعودی حکومت حج انتظامات کے سلسلے میں پس و پیش نہیں کرتی ان کے تمام امور مقررہ وقت پر انجام دیئے جاتے ہیں جب کہ وزارت مذہبی امور حج سے متعلق امور پر سست روی کا شکار ہے۔ بہرکیف عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد حج کی سعادت سے محروم رہتی ہے تو اس کی ذمہ داری کا تعین ہونا چاہیے اور ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ ہمیں تو حج مشن کے حکام پر حیرت ہے ڈائریکٹر جنرل حج کی ذمہ داری تھی وہ اپنی وزارت کے ذمہ دار افسران کو پرائیویٹ گروپس کی بروقت بکنگ کی اجازت دینے کی تجویز دیتے۔ ریگولر اسکیم کے بکنگ میں نہ جانے کیوں جلد بازی سے کام لیا گیا دونوں گروپس کے لئے بیک وقت بکنگ کا آغاز ہونا چاہیے۔ اگر ریگولر اسکیم میں عازمین حج کم تعداد میں جاتے ہیں اس سے وزارت مذہبی امور کو کیا نقصان تھا۔ یہ سب کیا دھرا مذہبی امور کی وزارت میں مبینہ طور پر بدانتظامی کا نتیجہ ہے ورنہ حج تو ہر سال ہوتا ہے۔ امسال تو حد کردی گئی آئے روز مذہبی امور کے افسران اور حج مشن میں تبدیلیاں بد انتظامی کا باعث بنتی ہیں۔ کئی سال گزرنے کے باوجود مذہبی امور کی وزارت مدینہ منورہ میں پاکستان ہاوسز کے لئے عمارات کی خریداری نہیں کر سکی ہے حالانکہ اس مقصد کے لئے حکومت پاکستان سے رقم درکار نہیں پاکستان ہاوسز کی عمارات سعودی منصوبوں میں آنے کے بعد اس کے بدلے ایک کثیر رقم سعودی حکومت کے پاس جمع ہے۔ سعودی حکومت نے عمارت خریدنے کی اجازت دے بھی دی ہے اس کے باوجود پاکستان ہائوس کے لئے عمارات خریدنے کا معاملہ سست روی کا شکار ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو مذہبی امور میں برسوں سے بیٹھے افسران کو دوسری وزارتوں میں تبدیل کرنا چاہیے تاکہ نئے آنے والے افسر چند سال تک ٹھیک کریں گے ۔

جواب دیں

Back to top button