سندھ میں پانی کی کمی پر زیادہ شور کیوں؟

تحریر : روشن لعل
پاکستان میں نومبر سےمئی تک دریائی یا نہری پانی کی کمی کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔پانی کی تقسیم کے 1991ء کے معاہدے کے مطابق ، کل دستیاب پانی کے تخمینے،114.35ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے پنجاب کا حصہ 55.94،سندھ کا حصہ48.76، کے پی کے کا حصہ5.78 اور بلوچستان کا حصہ3.87ملین ایکڑ فٹ مختص ہے۔ یہ تخمینہ تو لگا لیا گیا تھا کہ یہاں 114.35ملین ایکڑ فٹ سے بھی زیادہ پانی دستیاب ہوگا لیکن ہر برس لگاتار اتنا پانی دستیاب ہونا ممکن نہ ہو سکا۔ تخمینے کے مطابق پانی دستیاب نہ ہونے کی صورت میں صوبوں کے مختص حصے میں سے اتنے فیصد پانی کی کٹوتی کرنا پڑتی ہے جتنے فیصد تخمینے سے کم پانی دستیاب ہوتا ہے ۔ صوبہ پنجاب اور سندھ کا کل دستیاب پانی میں سے مجموعی حصہ کیونکہ 91.56فیصد ہے اس لیے دونوںصوبوں کی زراعت کا نہری پانی کی دستیابی پر انحصار بہت زیادہ ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا کہ پنجاب اور سندھ میں ہونے والے زرعی افعال کا انحصار اگر نہری پانی کی دستیابی پر ایک جیسا ہے تو پھر مختص حصے سے کم پانی ملنے پر جس طرح کا شور صوبہ سندھ میں سننے کو ملتا ہے اس طرح کا شور پنجاب میں کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگر پنجاب کے مختلف علاقوں میں بارش کی سالانہ اوسط131.63ملی میٹر سے 966.57ملی میٹر تک ہے تو سندھ کے مختلف علاقوں میں 28 ملی میٹر سے 91ملی میٹر تک ہے۔ اسی طرح اگر پنجاب کے طول و عرض میں وسیع پیمانے پر زیر زمین میٹھا پانی دستیاب ہے تو سندھ میں زراعت کے لیے موزوں میٹھے زیر زمین پانی کی دستیابی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھ میں زرعی افعال کے لیے کیونکہ بارش یا زیر زمین پانی کا متبادل وسیلہ پنجاب کی طرح دستیاب نہیں ہے اس لیے وہاں اگر مختص حصے سے کم پانی ملتا ہے تو زیادہ شور سننے کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سندھ کے کم پانی دیئے جانے کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں جنہیں ذیل میں بیان کیے گئے دو واقعات کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔
جس طرح ان دنوں سندھ میں نئی نہروں کی تعمیر اور مختص حصے سے کم پانی ملنے پر تقریبا پورا صوبہ احتجاج پر آمادہ نظر آ رہا ہے ، اسی طرح وہاں سال 2021ء میں بھی خاص طور پر حکومتی ترجمان سراپا احتجاج ہوئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2021ء میں بھی سندھ میں پانی کی کمی کا مسئلہ کم سنگین نہیں تھا لیکن آج کل پانی کی کمی کے مسئلے پر دہائیاں دینے والے ذوالفقار جونیئر اور دیگر قوم پرست ان دنوں عمومی منظر نامے سے غائب رہے تھے ۔ سال 2021 ء کے اپریل اور مئی کے مہینوں میں سندھ حکومت کے ترجمانوں کا یہ کہنا تھا کہ ان کے صوبے کو گزشتہ برس یعنی سال 2020ء کی نسبت 50فیصد کم پانی دیا جارہا ہے۔ اس بیان کے جواب میں اس وقت کی وفاقی حکومت اور ارسا نے پہلے تو یہ کہا کہ سندھ کی طرف پانی کے بہائو میں 10فیصد کمی ہوئی ہے لیکن بعد ازاں اس کمی کو 18فیصد تک تسلیم کر لیا ۔ ان دنوں ارسا اور پنجاب اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب یکم سے 7مئی اور 12سے 18مئی تک کے دستیاب ڈیٹا سے جو کچھ اخذ ہوا اس سے ارسا اور سندھ حکومت میں سے کسی کا موقف بھی مکمل درست ثابت نہ ہوسکا۔ ارسا اور پنجاب اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹس پر دستیاب 14دنوں کا جو ڈیٹا لیا گیا اس کے مطابق مذکورہ 14دنوں کے دوران سال 2020ء میںگدو بیراج کے مقام پر تقریباً966000کیوسک پانی فراہم ہوا جبکہ2021ء میں 668000کیوسک پانی دیا گیا۔ سال 2021ء میںگدو بیراج پر ملنے والی پانی کی مقدار 2020ء کی نسبت 298000کیوسک یعنی 30.85فیصدکم رہی تھی۔اسی طرح سکھر بیراج پرسال2020ء میں 760000کیوسک اور2021ء میں 535000کیوسک پانی دیا گیا جوایک برس پہلے کی نسبت 225000کیوسک یعنی 29.60 فیصد کم تھا۔کوٹری بیراج پر2020ء میں 242000کیوسک اور 2021ء میں108000کیوسک پانی آیا جو ایک سال پہلے فراہم کیے گئے پانی کی نسبت 134000کیوسک یعنی55.37 فیصد کم تھا۔ مذکورہ اعدادوشمار سے یہ ثابت ہوا کہ سال 2021ء سندھ حکومت کے ترجمانوں نے اپنے صوبے میں پانی کی فراہمی میں 50فیصد کمی کا جو موقف پیش کیا وہ کم از کم کوٹری بیراج کی حد تک درست تھا لیکن ارسا کا موقف سندھ کے کسی بھی بیراج پر پانی کی فراہمی کے لیے درست ثابت نہ ہوا۔ ان دنوں ارسا نے یہ بھی کہا تھا کہ صرف سندھ نہیں پنجاب کو پانی کی فراہمی میں بھی کمی کی گئی ہے لیکن پنجاب سے پانی کی فراہمی میں کمی کے ارسا کے بیان کو کسی نے چیلنج نہ کیا جبکہ سندھ نے ا رسا کے بیان کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ اعدادو شمار کے ذریعے غلط بھی ثابت کیا ۔ سندھ میں پانی کی کمی کے حوالے سے دوسرا اہم واقعہ نومبر 2018ء میں اس وقت رونما ہوا تھا جب پیپلز پارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی میں ایک توجہ دلائو نوٹس پیش کیا ۔ اس توجہ دلائو نوٹس پر اس وقت کے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ ایوان کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے پانی کی ایسی چوری پکڑی ہے جس کی مرتکب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی میں یہ حیران کن انکشاف کیا کہ سندھ کو اس کی ضرورت سے 58فیصد کم پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ دعوی بھی ٰ کیا تھا کہ سندھ کو اس کے پانی کے جائز حق سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے نوازشریف کی حکومت نے دریائوں کے پانی کی پیمائش کے لیے نصب ٹیلی میٹری سسٹم کو محض زبانی احکام پر بند کروادیا تھا۔ سال 2018 ء میں فیصل واوڈا نے بحیثیت وزیر آبی وسائل جو بیان دیا اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی تحقیقاتی کمیشن بنا کر بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی مگرنہ جانے کیوں ایسا نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی دوسری حکومت میں دریائی پانی کے بہائو کی پیمائش کرنے کے لیے جدید ٹیلی میٹری سسٹم کی تنصیب کا آغاز کر دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد یہ بات کبھی سامنے نہ آسکی کہ 1997ء میں میاں نوازشریف کی دوسری حکومت شروع ہونے کے بعد یہ منصوبہ کیوں ختم کر دیا گیا تھا ۔ اس پس منظر کو مد نظر رکھ کر اگر فیصل واوڈا کے قومی اسمبلی میں 2018ء میں دیئے گئے بیان کو دیکھا جائے تو یہ کافی معنی خیز معلوم ہوتا ہے۔ سندھ میں اگر پانی کی کمی کے حوالے سے زیادہ شور ابھرتا ہے تو اسے تعصب کی عینک لگا کر نہیں بلکہ سطور بالا میں بیان کیے گئے حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ سندھ اور سندھی بھی پنجاب اور پنجابیوں کی طرح ہی پاکستانی ہیں۔