Column

غزہ اور گمشدہ امت مسلمہ!

تحریر : عابد ضمیر ہاشمی
غزہ کی دل خراش کہانی نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو دکھی کر دیا، ایسا سلوک انسانوں سے تو دور، جانوروں سے بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ انصاف و انسانیت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ یہ فتح نہیں، پستی کی انتہا ہے۔ ظلم کبھی بہار نہیں لا سکا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ دنیا کی تمام امن پسند اقوام کے لیے غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکت، انسانیت سوز مظالم، شہری آبادی، ہسپتالوں میں بمباری، خوراک ، پانی کی بندش، نسل کشی پر شدید تشویش و اضطراب کا باعث ہے۔ وہ ارض مقدسہ جسے انبیاء کرامٌ کا مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کے ارد گرد برکت ہی برکت کا نزول ہے، جہاں سے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدؐ روح القدسٌ کے ہمراہ سفر معراج کے لیے پابرکاب ہوئے، جس دھرتی پر سید الثقلینؐ نے نبیوںٌ کی امامت کرا کے امام الانبیائؐ کا لقب پایا، جی ہاں وہی پر عظمت و پرشوکت زیتون کے درختوں سے آراستہ و پیراستہ سرسبز و شاداب بقعہ ارضی، جہاں اسلام کی عظمت رفتہ اور جنت گم گشتہ کا نشان قبلہ اول کی صورت میں موجود ہے، جس کے فاتح اول فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تھے، جس کے در و دیوار نے ایوبی کی تکبیر سنی تھی۔ محل وقوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس علاقے کو آج کل مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے، شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے ،جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ مغرب میں بحر متوسط کا طویل ساحل ہے۔ آج وہ سرزمین اسرائیل کے دل دہلا دینے والے مظالم میں جکڑی ہے اور امت مسلمہ بے بسی کی تصویر بنی ہے۔ اس ظلم و بربریت میں بتدریج متعدد علاقائی اور عالمی طاقتیں بھی شامل ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں حالات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال یہ مظلوم سرزمین ایک بین الاقوامی جنگ کا میدان بنتی نظر آ رہی ہے۔ یہ امت مسلمہ کی حالت خطہ فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ اس وقت عالم اسلام، غیر مسلموں کے زیر عتاب ہے۔ کشمیر، فلسطین، بھارت، برما، افغانستان، عراق، شام، سوڈان، لیبیا اور یمن ہر جگہ بے بس مسلمانوں کو قتل اور ان کے علاقوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ صدی میں امت مسلمہ سب سے زیادہ پریشان، مفلوک الحال اور مصیبت سے دو چار شکست خوردہ قوم ہے۔ اس کا نہ کوئی یار ہے اور نہ کوئی مددگار، یہ مظالم سہنے کی عادی ہوتی جا رہی ہے۔ اس میں نہ تو مدافعت کی طاقت ہے اور نہ ظلم کے خلاف احتجاج بلند کرنے کی قوت، آج یہ قوم تخت مشق بنی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اس کو نشانہ بنا رہا ہے۔ دانشوران قوم و ملت پریشان ہیں کہ جس قوم کی پیدائش کا مقصد خلافت ہے، ماضی اتنا شاندار ہے کہ نہایت ہی تزک و احتشام سے حکومت کی ہے، جس طرف گئے عروج و اقبال سے استقبال کیا گیا، اغیار سے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرات تھی، وہ قوم موجودہ دور میں انحطاط کی شکار اور زوال پذیر ہے۔ اس کی وجوہ کیا ہیں؟ درحقیقت اگر دس ہزار سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہی انکشاف ہوتا ہے کہ جس قوم نے بھی ترقی کی، اس میں تین خوبیاں ضرور موجود تھیں : دنیا میں ترقی کا پہلا اصول علم ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ ’’ ہم نے علم والوں کے درجات کو بلند کیا‘‘۔ بلندی کی بنیاد ہی علم ہے۔ ترقی کی دوسری اہم بنیاد معیشت ہوتی ہے۔ اکسٹھ اسلامی ممالک کا مجموعی جی ڈی پی صرف دو ٹریلین ڈالر ہے، جبکہ امریکہ صرف مصنوعات اور خدمات کے شعبے میں بارہ ٹریلین ڈالر کماتا ہے۔ امریکہ کی سٹاک ایکسچینج وال سٹریٹ بیس ٹریلین ڈالر کی مالک ہے۔ ترقی کی تیسری اہم بنیاد طاقت ہے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ ہے ، جس کے پاس بڑی فوج ہے، دفاعی بجٹ زیادہ ہے ،دنیا میں سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ دنیا کا ہر کمپیوٹر اور ہر ٹیلی فون مانیٹر کر رہا ہے۔ امریکہ کے بعد چین،اسرائیل ،روس، برطانیہ ،جرمنی، فرانس ،اٹلی آتے ہیں اور اس کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے۔ ترقی کا یہی فارمولا آج تک دنیا میں کارفرما ہے، لیکن شومئی قسمت مسلمانوں نے اپنی اور دیگر اقوام کی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا اور آج ان تینوں شعبوں میں ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، دنیا میں ایک ہندو اور ایک بدھ مت کے مقابلے میں دو مسلمان اور ایک یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں۔ آج دنیا میں اکسٹھ اسلامی ممالک ہیں، ان میں سے ستاون ملک مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کے رکن ہیں، لیکن ہم دنیا کی تیسری بڑی قوت ہونے کے باوجود انتہائی کمزور، حقیر اور بے بس نظر آتے ہیں۔ حدیث سے امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب واضح ہیں کہ اعمال خراب ہو گئے تو یہ قوم حاکم سے محکوم ہو گئی۔ غیر قوم کا تسلط ہو گیا۔ مال و زر پر دوسروں کا قبضہ ہو گیا۔ آپس کے معاملات خراب ہیں لین دین، اخوت و بھائی چارگی کا فقدان ہے، اختلافات نے امت مسلمہ کو برباد کر دیا ہے۔ ذلت و پستی ، انحطاط و کمزوری، ہلاکت و تباہی امت مسلمہ کو جکڑ لیا ہے، پھر بھی یہ امت سبق لینے کی بجائے دنیاوی عیش و عشرت میں مست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں مشرق سے لے کر مغرب تک، شمال سی لے کر جنوب تک ، اس وقت دنیا کی مظلوم ترین قوم مسلمان ہے: امہ مظلوم بنی ہوئی ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب پوری دنیا پر راج کرنے والے مسلمان ہوا کرتے تھے، ہر طرف امن و سکون تھا، مسلمان تو مسلمان، غیر مسلم بھی محفوظ تھے، لیکن آج دنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ قوم مسلمان ہی ہیں۔ الغرض اس وقت دنیا کا کوئی خطہ ایسا نظر نہیں آ رہا، جہاں پر مسلمانوں پر زمین تنگ نہیں، جبکہ یہ وہ امت ہے، جس کے تین سو تیرہ بے سرو سامان نے ہزاروں اسلحہ سے لیس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، تو عالم اسلام، جس کی ایک سو پچیس کروڑ آبادی ہے، پچاس لاکھ سے زائد افواج ہیں اور ایٹمی طاقت بھی ہے ،وہ کیوں ان کفار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتا؟ غزہ کی سرزمین کے بچوں کی فریاد کہ کہاں ہیں عرب؟ کہاں ہیں مسلمان؟ ہم آج بھی ابابیلوں کی منتظر ہیں۔ اور بے بسی کی تصویر بنے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کے لئے امتحان کی گھڑی ہے، اگر ہم میں سے ہر ایک نے اپنا مثبت کردار ادا نہ کیا تو کل ہم کسی بڑی آزمائش سے دو چار نہ ہو جائیں۔

جواب دیں

Back to top button