پاکستان میں معدنی ذخائر کے استحصال کے چیلنجز
تحریر : قادر خان یوسف زئی
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال ہے، اور ان وسائل کی مالیت کا تخمینہ چھ سے آٹھ کھرب ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جسے اگر ہم درست طریقے سے استعمال کریں تو یہ ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کا بیشتر حصہ اب تک غیر استعمال شدہ ہے۔ پاکستان کی حکومتیں معدنی وسائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہیں، لیکن اس راستے میں بے شمار مشکلات بھی موود ہیں، جن میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام، اور انتظامی پیچیدگیاں ہیں۔
پاکستان کے معدنی وسائل کی سب سے بڑی ذخیرہ گاہ بلوچستان ہے، جس میں ریکو ڈک کا سونا اور کاپر کے ذخائر دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ریکو ڈک میں تقریباً 12.3ملین ٹن کاپر اور 21ملین اونس سونا موجود ہے، جو اس منصوبے کو دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ کاپر اور سونے کے ذخائر میں سے ایک بناتا ہے۔ یہ ذخائر پاکستان کی اقتصادی حالت میں انقلاب لا سکتے ہیں، اور ریکو ڈک کا منصوبہ 2028میں کام شروع کر دے گا جس کی ابتدائی سرمایہ کاری 5.5 ارب ڈالر ہوگی۔ اس منصوبے سے37 سالوں میں 74 ارب ڈالر کی آزاد نقدی کی روانی پیدا ہوگی، جس سے پاکستان کو سالانہ 200000ٹن کاپر اور 250000اونس سونا حاصل ہوگا۔
سندھ کے علاقے میں بھی مختلف قسم کے معدنی ذخائر پائے جاتے ہیں، جن میں سب سے اہم کوئلہ ہے۔ تھر کا کوئلہ دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر میں شمار ہوتا ہے۔ تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ تقریباً 175بلین ٹن لگایا گیا ہے، اور یہ ذخائر پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تھر کوئلے کے ذخائر کو استعمال میں لانے کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن میں تھر بلاک IIکی کوئلہ مائننگ پروجیکٹ اور دیگر توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ سندھ کی زیادہ تر معدنیات غیر ترقی یافتہ ہیں اور ان کا صحیح طریقے سے استحصال نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے صوبے کی معیشت کو ان ذخائر سے مطلوبہ فائدہ نہیں مل سکا۔ اگر سندھ کے معدنی وسائل کا صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور ان وسائل کو مقامی کمیونٹیوں کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے تو نہ صرف بے روزگاری میں کمی ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
پنجاب کے سابق نگران وزیر معدنیات، ابراہیم حسن مراد، نے دعویٰ کیا تھا کہ اٹک میں 28لاکھ تولہ سونے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، جن کی مالیت تقریباً 800ارب روپے ( تقریباً 2.87ارب امریکی ڈالر) ہے۔ انہوں نے اس دعوے کی تصدیق کے لیے جیولوجیکل سروے آف پاکستان کی رپورٹ کا حوالہ دیا تھا، جس میں 127مختلف مقامات سے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔ اس دعوے کی تائید پنجاب کے وزیر معدنیات، سردار شیر علی گورچانی، نے بھی کی تھی، جنہوں نے اس دریافت کو اہم قرار دیتے ہوئے اس کی بین الاقوامی نیلامی کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم، اس دریافت کے بارے میں مختلف آراء بھی موجود ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پنجاب کے وزیر معدنیات نے دعویٰ کیا تھا کہ اٹک میں دریائے سندھ کے قریب سونے کے ذخائر موجود ہیں، لیکن بعض ماہرین نے اس دعوے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر منور صابر کے مطابق، دریاں کے کناروں پر سونے کے ذرات کی موجودگی ممکن ہے، لیکن ان کی مقدار اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ انہیں نکالنا اقتصادی طور پر فائدہ مند ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ سونے کی کان کنی کے اخراجات اور ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کی عملی حقیقت پسندی پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کا یہ قدرتی خزانہ کا مناسب استعمال کیا جائے تو پاکستان کو عالمی سپلائی چینز میں ایک اہم مقام حاصل ہو سکتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ پاکستان کے معدنی وسائل عالمی اقتصادی نظام کو نئی شکل دے سکتے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنے سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اس تمام تر ممکنہ خوشحالی کے باوجود، پاکستان کے معدنی ذخائر کا زیادہ تر حصہ دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ بلوچستان، جہاں پاکستان کا بیشتر معدنی خزانہ دفون ہے، دہشت گردی کے حملوں سے بدترین متاثر ہو چکا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد گروپوں کی جانب سے مسلسل حملوں نے کان کنی کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے، پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی دہشت گردی کے اثرات محسوس ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا، جو کہ قیمتی پتھروں، ماربل اور چونے کے ذخائر سے مالا مال ہے، ان وسائل سے استفادہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ یہاں بھی دہشت گردی کے حملے مقامی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اور اس کی وجہ سے غیر قانونی کانکنی اور اسمگلنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس غیر قانونی سرگرمی کا پاکستان کو سالانہ 500ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے ہے۔
پاکستان کی سیاست میں بھی معدنی وسائل سے متعلق سیاسی پوائنٹ اسکورنگ جاری ہے، اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ معدنیات سے متعلق فیصلے سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، نہ کہ ملک کی مجموعی بہتری کے لئے۔ اس صورت حال میں پاکستان کو ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جونہ صرف سیکیورٹی کے مسائل کو حل کرے بلکہ سیاسی استحکام اور حکومتی پالیسیوں میں ہم آہنگی بھی پیدا کرے۔ حکومت کو دہشت گرد گروپوں کے خلاف مزید سخت اقدامات کرنا ہوں گے اور عوامی سطح پر ایک نیا اعتماد قائم کرنا ہوگا تاکہ معدنی وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو ان علاقوں کے مقامی لوگوں کو اس قدر مستحکم کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے حملوں کے خلاف محض خود کو محفوظ نہ سمجھیں، بلکہ وہ اپنے علاقے کی ترقی میں فعال طور پر شریک ہوں۔
پاکستان کے معدنی ذخائر کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت کو ایک مضبوط اور مستحکم حکومتی ڈھانچہ قائم کرنا ہوگا، جہاں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے فورسز کی تعداد بڑھائی جائے اور ترقیاتی منصوبوں کی مکمل حفاظت کی جائے۔ اسی طرح، حکومت کو شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو اپنانا ہوگا، تاکہ ان وسائل کا فائدہ مقامی سطح پر بھی پہنچ سکے اور ملک کی معیشت میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکے۔ اگر اس راستے پر قدم بڑھایا جائے تو پاکستان اپنے معدنی وسائل کے ذریعے عالمی سطح پر ایک نیا مقام حاصل کر سکتا ہے، اور اپنی اقتصادی حالت کو مستحکم بنا سکتا ہے۔