ColumnTajamul Hussain Hashmi

اگر تم سوچتے ہو کہ دنیا بدل چکی ہے

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
یہ کہانی انسانی کردار سازی کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ معاشرتی اقدار میں بہتری آ سکے۔ فرد کے کردار سے پورا نظام جُڑا ہے۔ ہر شخص کو اپنا کردار درست طریقے سے ادا کرنا ہو گا۔ کراچی کی ایک چھوٹی سی گلی میں رہنے والا ایک سرکاری ملازم، تنخواہ سے پریشان، خوابوں سے محروم اور حالات سے تھکا ہوا، آخر سوچ بھی کیا سکتا ہے؟ دن بھر کام کرتا، شام کو واپس آ کر تھکا ہارا اخبار پڑھتا، اور دل ہی دل میں بڑبڑاتا: ’’ یہ ملک کبھی نہیں سدھرے گا، یہاں سب چور ہیں، سب مطلبی، کسی کو کسی کی عزت کا خیال نہیں، ہر کوئی اپنا اُلو سیدھا کر رہا ہے، حکومتی ایوانوں سے گلی محلوں تک صرف طاقت کا راج ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، شریف اور کمزور شہریوں کو دبایا جا رہا ہے، ان کی آواز بننے والا کوئی نہیں۔ آئین انہیں تحفظ دیتا ہے مگر اداری کمزور کو سپورٹ کیوں نہیں کر رہے؟‘‘، ہزاروں سوالات اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ ایک دن دفتر میں ایک لفافہ موصول ہوا، جس پر لکھا تھا: ’’ دین محمد کے لیے ایک خاص پیغام‘‘۔ دین محمد نے حیرانی سے لفافہ کھولا، اندر ایک خط تھا۔ الفاظ اجنبی تھے، مگر دین محمد کے دل میں اُترتے گئے: ’’ اگر تم یہ سوچتے ہو کہ دنیا بگڑ چکی ہے، تو یاد رکھو، تم خود بھی اس دنیا کا حصہ ہو۔ دین محمد، تم ایک دن، ایک مہینے یا ایک سال میں نظام نہیں بدل سکتے، لیکن تمہارا ایک چھوٹا سا عمل کسی کی دنیا بدل سکتا ہے‘‘۔
میں یہاں ایک اور اصلاحی واقعہ پیش کرتا ہوں: بحر الکاہل کے ساحل کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بچہ سمندر کی لہروں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ساحل پر آئی ہزاروں چھوٹی مچھلیوں میں سے ایک کو اٹھاتا، اور واپس سمندر میں پھینک دیتا۔ ایک شخص نے قریب آ کر پوچھا: ’’ بیٹا، تم یہ کیا کر رہے ہو؟ اس سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘، بچے نے انکل کو دیکھ کر جواب دیا: ’’ جناب! آپ یا مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن جو مچھلی واپس سمندر میں گئی، اُس کی تو پوری دنیا بدل گئی‘‘۔
دین محمد! اگر تم سچ بولنے لگو، رشوت سے انکار کر دو، کسی غریب بچے کی فیس ادا کر دو، مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو جا، نماز میں جو پڑھتے ہو اُس کا ترجمہ سیکھ لو تاکہ جان سکو کہ اللہ سے کیا بات کرتے ہو، اگر تم لوگوں کو اپنی چالاکیوں سے بیوقوف بنانا چھوڑ دو، اگر تم جان لو کہ یہ دنیا ایک لمحے میں فانی ہو سکتی ہے، تو دین محمد! تم جنازہ بننے سے پہلے انسان بن جا گے۔ دین محمد! ہمیں معجزوں کا انتظار ہے، ان فرشتوں کا جو کبھی نہیں آئیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم خود وہ مقصد بھول چکے ہیں جس کے لیے اس دنیا میں آئے تھے۔ ہم دوسروں کو لوٹ کر اپنی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں، دوسروں کو دکھ دے کر اپنا سکھ ڈھونڈتے ہیں، ہم جھوٹی باتوں پر قرآن اٹھاتے ہیں، جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، ہوٹر والی گاڑی اور چار گارڈز کے حصار میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، مگر یہ سب فریب ہے۔ ہم اس فریب میں ڈوب چکے ہیں۔ سچ بولنے والوں کو زدوکوب کرتے ہیں۔ دین محمد! تم خود کو ان غلط کاموں سے تب ہی روک سکو گے جب تم فرمانِ الٰہی کو سمجھو گے، جب اللہ کے احکامات کو اپنا لو گے، جب ’’ رزاق‘‘ اللہ کو مان لو گے، جب تم دوسروں کے حقوق کو تسلیم کرو گے، جب تم منہ کے نوالے کی تاثیر پہچانو گے۔ کئی انسان سانپ نما ہوتے ہیں، جو پہلے اپنے بچے اور پھر ہمسفر کو نگل جاتے ہیں۔ دین محمد! تمہاری روح کو سکون آ جائے گا۔ تب تم صرف ایک اچھے انسان نہیں، بلکہ ایک ’’ بدلا‘‘ بن جائو گے۔
کل کی بہتری کا راستہ آج کے بہتر انسان سے نکلتا ہے۔ تبدیلی تم سے شروع ہوتی ہے۔ دین محمد نے وہ خط کئی بار پڑھا۔ وہ دن اور آج کا دن، دین محمد بدل چکا ہے۔ اب وہ صبح وقت پر دفتر جاتا ہے، رشوت کی جگہ کام کی رفتار بڑھا دی ہے، رشوت سے مکمل انکار کر چکا ہے۔ قریبی لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے، محلے کے بچوں کو شام میں مفت پڑھاتا ہے۔ اپنے عمل سے سہولتیں بانٹ رہا ہے۔ اس کا ایک نیک عمل باقی تمام اعمال پر سبقت لے گیا۔ اب وہ شکایت چھوڑ کر شکر گزار ہو چکا ہے۔ جو کچھ محنت سے ملا، اس پر قناعت کر کے اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ کچھ سال بعد جب وہ کامیاب ہوا، تو اس نے اپنی ڈائری میں وہی خط محفوظ رکھا، جس کے نیچے لکھا تھا: ’’ یہ صرف ایک خط نہیں تھا، یہ میری نئی زندگی کا آغاز تھا‘‘۔ سینئر صحافی و منصف رئوف کلاسرا صاحب کہتے ہیں کہ ’’ حقیقی محب وطنی یہی ہے کہ آپ کے زبان اور ہاتھ سے دوسرا شخص محفوظ رہے‘‘۔ ہمارے بھائی جیسے دوست شیراز کوٹی بھی اکثر کہتے ہیں: ’’ اگر کسی عزیز کو سکون نہیں دے سکتے، تو کم از کم اُس کے دکھوں میں اضافہ کا سبب نہ بنو‘‘۔
پاکستان میں تبدیلی لانے کے لیے فرد کو خود کو بدلنا ہو گا۔ ہم اس تبدیلی کی بات نہیں کر رہے جو خان سرکار کرتی ہے، بلکہ وہ حقیقی تبدیلی درکار ہے جس میں معاشرتی رویے مثبت ہوں، نہ کہ ملکی املاک کا نقصان۔ حکومتی اقدامات میں معاشرتی مسائل کو مکمل طور پر ایڈریس نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں افراتفری اور لاقانونیت میں اضافہ ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے ذاتی مفادات پر توجہ مرکوز رکھی۔ ملک کی موجودہ صورت حال بہتری کی طرف گامزن ہے۔ خالی پیٹ انسان کو کفر کے قریب کر دیتا ہے، مگر وزیر اعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف سید عاصم منیر کی محنت سے غربت میں کمی اور شرحِ نمو میں بہتری آ رہی ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں، جس سے ترقی کی رفتار میں اضافہ ممکن ہے۔ ملک سے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے ریاست پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہے۔ سیکیورٹی اداروں میں بغاوت کو ہوا دینے والے پاکستان کے دشمن ہیں۔ ہزاروں جوان اپنے وطن کی سلامتی کے لیے جان نثار کر رہے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف سید عاصم منیر نے حالیہ بیان میں دہشت گردوں کو دو ٹوک پیغام دے کر قوم کے دل جیت لیے ہیں۔ انہوں نے قوم کو امید، حوصلے اور عدم مایوسی کا پیغام دیا ہے۔ یہ ایک نیا جذبہ ہے، بہادر سپہ سالار کا سچا پیغام ہے: پاکستان زندہ باد، ان شاء اللہ تاحیات قائم رہے گا۔ دشمن کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان زندہ باد، مضبوط آرمی زندہ باد۔

جواب دیں

Back to top button