Column

غیر منصفانہ اور بیہودہ ٹیکس نظام

تحریر : محمد ناصر شریف
پاکستان میں وفاقی حکومت کے ماتحت ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے ذمے ٹیکس وصولی کا کام ہے۔ صوبائی سطح پر بھی ٹیکس وصولی کے ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن قومی سطح پر ایف بی آر ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کا واحد ادارہ ہے۔ ٹیکس کے نظام کو دیکھا جائے تو اس میں انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کے ذریعے ٹیکس رقم یا محصولات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ٹیکس وصولی میں ستر فیصد حصہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے جبکہ ڈائریکٹ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس صرف 30فیصد ہے۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کے ذریعے بھی پٹرولیم صارفین کی جیبوں سے اربوں روپے نکالتی ہے۔
پاکستان کا ٹیکس نظام ہمیشہ ہدف تنقید ہی رہا ہے کیونکہ اس نظام میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ امرا، جاگیردار اور وڈیروں سے برائے نام کی ٹیکس لیا جاتا ہے جس سے معاشرے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ٹاپ 5فیصد اشرافیہ 16کھرب روپے کا ٹیکس چوری کر رہی ہے۔
اسی تناظر میں عالمی بینک نے پاکستان کے ٹیکس نظام کو ’’ انتہائی غیر منصفانہ اور بیہودہ‘‘ قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ جائیداد کو موثر طریقے سے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور اس کا درست اندراج و ٹیکس لگایا جائے۔
عالمی بینک کے مطابق تنخواہ دار طبقے پر بڑھتا ہوا بوجھ صرف اسی صورت میں کم ہو سکتا ہے جب ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے اور تمام آمدن کو اس میں شامل کیا جائے۔ عالمی بینک نے مزید کہا کہ محصولات کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ نظام سے قلیل مدتی فائدے تو حاصل ہو رہے ہیں، لیکن طویل مدتی آمدنی کے مواقع ضائع ہو رہے ہیں۔ اخراجات کے حوالے سے پائڈ کے وائس چانسلر ندیم جاوید نے انکشاف کیا کہ ترقیاتی بجٹ کا 40فیصد کمیشن کی صورت میں ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ آڈیٹر جنرل پاکستان (AGPR)کے بغیر 5سے7فیصد کمیشن دئیے کوئی بل کلیئر نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا یہ ایک حقیقت ہے اور سب کو معلوم ہے۔
ورلڈ بینک کے لیڈ کنٹری اکنامسٹ ٹوبیاس ہاک نے اسلام آباد میں پائڈ کے زیر اہتمام ہونیوالی کانفرنس ’’ پاکستان کا مالیاتی راستہ : شفافیت اور اعتماد کو فروغ دینا‘‘ کے ایک پینل مباحثے میں کہا زرعی آمدنی پر صوبائی سطح پر ٹیکس ایک مثبت قدم ہے۔ اب جائیداد کے شعبے کو بھی درست طریقے سے رجسٹر اور ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے۔ ڈیجیٹل نظام کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا اور تمام آمدن شامل کرنا تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ 24کروڑ کی آبادی میں صرف 50لاکھ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں اور زیادہ تر ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کا ٹیکس نظام انصاف کے اصولوں کے لحاظ سے غیر منصفانہ ہے۔ اگر ملک صرف 50لاکھ فائلرز کے ساتھ چلتا رہا، تو اس سے کوئی دیرپا حل ممکن نہیں۔ پرائم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر علی سلمان نے کہا کہ نظام میں وضاحت کی ضرورت ہے اور ودہولڈنگ ٹیکس کی تعداد کم کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت 88ودہولڈنگ ٹیکسز موجود ہیں جن میں سے 45ٹیکسز کی آمدن ایک ارب روپے سے بھی کم ہے۔
ہمارے ملک کا ٹیکس نظام ٹوٹ پھوٹ اور زبوں حالی کا شکار اور کرپشن و چوری کی آماجگاہ ہے، ٹیکس جمع کرنے والے محکمے ٹیکس کا ایسا مستحکم اور سب کیلئے قابل قبول فول پروف نظام متعارف کرانے میں ناکام ہیں جو معیشت کے استحکام کا زینہ بنتا۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے گزشتہ دنوں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ملک کا نظام سلیب معیاری نہیں ہے جو کاروبار کے چلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق ٹیکس وصولی کے موجودہ نظام میں سب سے بڑی خرابی غریبوں پر بالواسطہ ٹیکس کی بھرمار ہے۔ ملک کی کل آبادی 24کروڑ کے لگ بھگ اور ٹیکس ادا کرنیوالے فائلرکی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 45لاکھ ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کا ہر شہری ٹیکس دے رہا ہے، بات ہے سمجھ کی۔
ایک عام دیہاڑی دار مزدور جب ماچس خریدتا ہے، چائے کی پتی خریدتا ہے یا دیگر اشیا ضرورت کی خریداری کرتا ہے تو اس پر جی ایس ٹی ادا کرتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص اپنے گھر کے بجلی کے بل، گیس کے بل یا پانی کے بل جمع کراتا ہے، اپنی موٹرسائیکل میں پٹرول یا موبائل میں بیلنس ڈلواتا ہے تو بھی وہ مختلف قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے، لیکن ان کا کہیں کوئی شمار یا ذکر نہیں ہوتا۔ بات صرف فائلر اور نان فائلر تک محدود رہتی ہے۔
ویسے بھی پاکستان میں ٹیکس کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے اور غریب عوام پر ہے۔ جب کہ امیر طبقہ حد سے زائد وسائل اور آمدنی کے باوجود غریبوں کے مقابلے میں کم ٹیکس دیتا ہے۔ ہر سال بجٹ کے موقع پر جہاں ایک طرف تنخواہ دار طبقے کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ریلیف دیا جاتا ہے تو دوسری جانب ان کی تنخواہوں و مراعات پر مختلف سلیب کے ذریعے ٹیکس میں اضافہ کرکے دینے سے زیادہ واپس لے لیا جاتا ہے جبکہ ٹیکس ذرائع کے بڑے شعبے زراعت، ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، ایکسپورٹرز ، ٹرانسپورٹرز اور دیگر کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور فائلر بنانے میں تساہل پسندی سے کام لیا جاتا ہے، ٹیکس کے حصول کا سب سے آسان ہدف تنخواہ دار طبقہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے بعض ایسے شعبے ہیں جو تنخواہ دار طبقے سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں۔ مثلاً ایکسپورٹرز تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں کم ٹیکس دیتے ہیں۔ اسی طرح زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 19فیصد ہے جبکہ ٹیکس کی ادائیگی صرف ایک فیصد ہے۔
خدمات کا شعبہ جس میں ڈاکٹر اور خدمات کے دیگر شعبے اور ریٹیل یعنی دکاندار اور تاجر وغیرہ شامل ہیں ان کا جی ڈی پی میں حصہ 60فیصد ہے تاہم ان کا ٹیکس میں حصہ صرف 29فیصد ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ کی جانب سے بھی ٹیکس کی ادائیگی بہت کم ہے۔
پاکستان میں رائج ٹیکس نظام میں بنیادی خامیاں ہیں لیکن انہیں دور کرنے کیلئے عملی اقدامات نہیں کئے جارہے۔ حکومت کاروبار پر عائد ٹیکسز کی تعداد اور بلند شرح کو نیچے لانا ہوگا۔
ٹیکس کے نظام میں اصلاحات نہ کرنے اور ریگولیٹری فریم ورک کو بہتر بنانے میں ناکامی آمدنی کی وصولی کو کمزور کرے گی جس کے نتیجے میں حکومت کو مزید آئی ایم ایف قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا جو سخت شرائط کے ساتھ آتے ہیں۔ غیر ملکی قرضے اور ان پر عائد سود پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سوال یہ ہے کہ 8ماہ میں 6ارب ڈالر قرض لینے کے باوجود کس شعبے میں بہتر ی آئی ہے۔ ملک میں ایسا کون سا انفرا سٹراکچر بنایا گیا ہے جسکی آمدن سے ملک قرضے اتارنے کے قابل ہو سکے۔ غیر ملکی قرضوں سے اس طرح کے منصوبے شروع کئے جائیں جس سے مجموعی آمدن بڑھ سکے۔ معیشت اور ٹیکسز کے نظام میں پائے جانے والے بنیادی بگاڑ کو درست کیا جائے۔ حکومت مقامی کاروباروں کو ترقی اور بند صنعتوں کی بحالی پر توجہ مرکوز کرے کیونکہ اپنے وسائل بڑھنے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں 75سال تک ملک کا طاقتور زمیندار طبقہ کسی بھی قسم کے زرعی ٹیکس سے آزاد رہا جبکہ صنعتکار، تاجر اور عام شہری مختلف نوعیت کے ٹیکس ادا کرتے رہے۔ اب سندھ حکومت نے 2025ء کے بجٹ میں ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت سالانہ چھ لاکھ روپے تک کی زرعی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگی جبکہ 5.6ملین روپے سے زائد آمدنی پر زیادہ سے زیادہ 45فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ قانون بھی اسی طرح کی ایک اور چال ہے، جس میں چھوٹے کسان ہی پسیں گے اور جاگیردار بدستور محفوظ رہیں گے، یا واقعی یہ اصلاحات کی جانب قدم ہے۔

جواب دیں

Back to top button