ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخی ہارورڈ یونیورسٹی کو ’ مذاق ’ قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو ’ مذاق ’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی اعلیٰ یونیورسٹی کی جانب سے بیرونی سیاسی نگرانی میں آنے کے مطالبات کو مسترد کرنے کے بعد اس کے سرکاری تحقیقی معاہدے منسوخ کر دینے چاہئیں۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر کہا، “’ ہارورڈ کو اب پڑھنے کی ایک مناسب جگہ بھی نہیں سمجھا جا سکتا، اور اسے دنیا کی عظیم یونیورسٹیوں یا کالجوں کی کسی بھی فہرست میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے، ہارورڈ ایک مذاق ہے، جو نفرت اور حماقت سکھاتی ہے، اور اسے اب وفاقی فنڈز نہیں ملنے چاہئیں۔’
ڈونلڈ ٹرمپ داخلوں، بھرتیوں اور سیاسی جھکاؤ پر حکومتی نگرانی میں آنے کے اپنے مطالبے کو مسترد کرنے پراس تاریخی یونیورسٹی پر برافروختہ ہیں جس نے 162 نوبل انعام یافتہ پیدا کیے ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی سمیت دیگر ادارے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات کے آگے جھک گئے ہیں، مگر ہارورڈ یورنیورسٹی نے اس دباؤ کو صاف طور پر مسترد کر دیا، یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے اس ہفتے کہا کہ یونیورسٹی’ اپنی آزادی یا اپنے آئینی حقوق پر گفت و شنید کرنے سے انکار کرتی ہے۔’
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے ہارورڈ ، جو عالمی تحقیقی مرکز ہے، کے لیے 2.2 ارب ڈالر کی وفاقی فنڈنگ منجمد کرنے کا حکم دیا، علاوہ ازہ انہوں نے یونیورسٹی سے غیر منافع بخش تعلیمی ادارے کے طور پر ٹیکس سے مستثنیٰ حیثیت چھیننے کی بھی دھمکی دی۔
ہارورڈ یونیورسٹی کو منجمد کی گئی ادائیگیاں اس کے سرکردہ تحقیقی پروگراموں کے ساتھ سرکاری معاہدوں کے لیے ہیں، جن میں زیادہ تر طبی شعبے میں ہیں، جہاں لیبارٹریاں نئی ادویات اور علاج کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ٹرمپ اور ان کی وائٹ ہاؤس ٹیم نے یونیورسٹیوں کے خلاف اپنی مہم کو اس کے ردعمل کے طور پر جائز قرار دیا ہے جسے وہ بے قابو سامیت دشمنی قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تنوع کے پروگراموں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
سامیت دشمنی کے الزامات گزشتہ سال امریکی کالج کیمپس میں غزہ میں اسرائیل کے تنازع کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر تنازعہ پر مبنی ہیں۔
نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی، جو احتجاجی مظاہروں کا مرکز تھی، نے گزشتہ ماہ 400 ملین ڈالر کے وفاقی فنڈز کے نقصان کی دھمکی کے بعد اپنے مشرق وسطیٰ کے مطالعاتی شعبے کی نگرانی پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔
تنوع کے بارے میں دعوے طویل عرصے سے قدامت پسند شکایات میں شامل ہیں کہ امریکی یونیورسٹی کیمپس بہت زیادہ لبرل ہیں، دائیں بازو کی آوازوں کو بند کر رہے ہیں اور سفید فاموں کے مقابلے میں سیاہ فام اور دیگر اقلیتی گروہوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ہارورڈ کے معاملے میں، جو ملک کی سب سے قدیم اور امیر ترین یونیورسٹی ہونے کے ساتھ دنیا کے سب سے معزز تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں سے ایک ہے، وائٹ ہاؤس یونیورسٹی کے داخلی امور پر حکومت کے کنٹرول کے لیے بے مثال کوششیں کررہا ہے۔
ہارورڈ کو بھیجے گئے ایک خط میں، انتظامیہ کے مطالبات میں ایسے داخلوں کو ختم کرنا شامل تھا جو طالب علم کی نسل یا قومی اصل کو مدنظر رکھتے ہیں، اس کے علاوہ ’ امریکی اقدار اور اداروں کے مخالف’ غیر ملکی طلباء کے داخلے کو روکنا؛ نسل، مذہب، جنس یا قومی اصل کی بنیاد پر عملے کی بھرتی کو ختم کرنا شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کیمپس گورننس میں طلباء کی طاقت کو کم کرنا؛ ’ نقطہ نظر کے تنوع’ کے لیے طلبا اور عملے کا آڈٹ کرنا؛’ سامیت دشمنی یا دیگر تعصب کے سنگین ریکارڈ’ کے لیے پورے پروگراموں میں اصلاحات کرنا؛ اور کیمپس کے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کرنا شامل ہیں۔