Column

گھاس سے آستین تک چھپے سانپ

تحریر : علیشبا بگٹی
’’ گھاس میں چھپا سانپ، اب سوٹ پہننے لگا ہے‘‘۔ اس شخص کو کہا جاتا ہے۔ جو بظاہر ساتھی دوست ہمدرد اور معصوم لگتا ہے، لیکن دراصل اندر سے بہت خطرناک اور دھوکہ دینے والا ہوتا ہے۔ پرانی مثالوں میں سانپ کو چھپ کر وار کرنے والے دشمن کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔۔ ’’ اب سوٹ پہننے لگا ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ دھوکے باز یا مکار انسان جدید دور میں نفیس لباس، مہذب انداز اور اچھے طور طریقے اپنا کر سامنے آتا ہے، تاکہ اس کی اصلیت چھپی رہے اب دھوکہ دینے والے لوگ سیدھے سادے یا جنگلی نہیں ہوتے، بلکہ وہ معاشرے میں عزت دار، پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کا روپ دھار کر آپ کے قریب آتے ہیں۔ ان سے بچنا اور پہچاننا زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ یعنی ’’ گھاس میں چھپا سانپ‘‘ ایک اردو محاورہ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے۔ ایسا دشمن یا نقصان پہنچانے والا شخص جو بظاہر دوست یا خیر خواہ لگے، لیکن اندر ہی اندر سازش یا دھوکہ دے رہا ہو۔
ایک زمانے کا ذکر ہے کہ ایک نیک دل بادشاہ اپنی رعایا کی فلاح کے لیے دن رات محنت کرتا تھا۔ وہ انصاف پسند، رحم دل اور عقل مند تھا۔ اس کے وزیر بھی با اعتماد اور وفادار سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ان میں ایک وزیر ایسا تھا جو بظاہر وفادار نظر آتا، مگر دل میں بادشاہ سے حسد رکھتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح بادشاہ کو بدنام کرے یا اسے ہٹاکر خود اقتدار حاصل کرے۔ اور وہ اندرونی طور پر بادشاہ کے دشمن سے ملا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ ساز باز کر کے بادشاہ کے خلاف سازش میں بھی لگا ہوا تھا۔ اور وہ بادشاہ کے دشمن کے دیئے ہوئے مشن اور ٹاسک پر لگا ہوا تھا۔ یہ وزیر دن رات محل میں رہ کر بادشاہ کی جاسوسی کرتا، اس کے فیصلوں پر تنقید کرتا، اور خفیہ طور پر دوسرے درباریوں کے دل میں بھی شک کے بیج بوتا۔ اور لوگوں میں بھی بھی بادشاہ کے حکم کا نام لے کر ایسے کام کرتا تک کہ سب رعایا کو بادشاہ سے بالکل بدظن کیا جا سکے اور عوام میں بادشاہ کے مخالفین کا نام اونچا ہوسکے۔ لیکن وہ یہ سب کچھ اتنی چالاکی سے کرتا کہ کوئی اس پر شک نہ کرتا۔ وہ سب کی نظروں میں نیک اور وفادار نظر آتا۔ ایک دن ایک دانا بزرگ بادشاہ کے دربار میں آئے۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا۔ اے بزرگ، میرے محل اور عوام میں سب کچھ ٹھیک تو ہے؟۔ بزرگ نے کہا۔ بادشاہ سلامت، سب کچھ ظاہر میں تو ٹھیک ہے، مگر گھاس میں ایک سانپ چھپا بیٹھا ہے، جو آپ کے پیروں کو ڈسنے کے قریب ہے۔ بادشاہ چونک گیا۔ اس نے فوراً ایک خفیہ نگراں کو حکم دیا کہ وہ تمام وزیروں پر نظر رکھے۔ چند دنوں بعد اس وزیر کی حقیقت کھل گئی۔ اس کے پاس سے سازشی خط، رشوت کے نشانات اور بادشاہ کے خلاف منصوبے برآمد ہوئے۔ بادشاہ نے فوراً اسے گرفتار کروایا اور عوام کے سامنے اس کی چالاکی کو بے نقاب کیا۔ پھر بادشاہ نے دربار میں سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔ یاد رکھو، ہمیشہ دشمن باہر سے نہیں آتا، کبھی کبھار گھاس میں چھپا سانپ بھی سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ تب سے وہ بادشاہ اور بھی ہوشیار ہو گیا، اور اس نے سچائی، دیانت، خلوص اور اپنے مخلص لوگوں کو پہچاننے کا ہنر سیکھ لیا۔
یہ محاورہ عام طور پر ایسے لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ جو کسی شخص کی دی ہوئی آسائشوں سے فائدہ اٹھا کر آسائشیں دینے والے شخص کے ساتھ ہی کوئی ایسی حرکت کرے جو اس کے نقصان کا باعث ہو یا آسائشیں دینے والے کو قلبی صدمہ پہنچائے۔ اسی لیے سانپوں میں سب سے زہریلی قسم آستین کا سانپ ہے یہ سانپ ساری عمر آپ کا خیر خواہ بن کر آپ کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر حسد اور منافقت کے تمام حدیں پار کرتا جاتا ہے، آپ کو خبر تک نہیں ہونے دیتا اور موقع ملنے پر ڈستا ہے آستین کے سانپ کا ڈسا ہوا انسان مشکل سے ہی بچتا ہے اپنے ارد گرد کے سانپوں کو بر وقت پہچانیں اس سے پہلے کے دیر ہو جائے۔ آستین کے سانپ اکثر وہی ہوتے ہیں جنہیں ہم نے خود سینے سے لگایا ہوتا ہے، اور بعد میں ہم حیران ہوتے ہیں کہ ڈسا کس نے ؟
شاعر کہتا ہے کہ
رہنے کو دل بھی تھا، مگر اے دوست آپ نے
حیران ہوں انتخاب کیا آستین کا
زندگی میں کئی بار ہم ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو بظاہر دوست لگتے ہیں مگر وقت آنے پر وہی دشمن سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر نرم لہجے، میٹھے الفاظ اور خیر خواہی کے پردے میں چھپے رہتے ہیں، مگر جب موقع ملے تو آستین کے سانپ بن کر ڈس لیتے ہیں۔ ہم دھوکہ دشمن سے نہیں بلکہ ہمیشہ اپنے ہی کسی قریبی انسان سے کھاتے ہیں۔ اس لیے بعض اوقات زندگی ہمیں یہ سکھا دیتی ہے کہ ہر مسکراتا چہرہ مخلص نہیں ہوتا اور ہر میٹھا بولنے والا دوست نہیں ہوتا۔ اور جس کے پاس گھاس میں چھپے سانپ سے آستین تک کے سانپ ہوں اسے پھر دشمن کی کیا ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button