ColumnImtiaz Ahmad Shad

سیاست میں الجھی ریاست کی توجہ درکار

تحریر : امتیاز احمد شاد
سیاست میں الجھی ریاست، حکومت اور 24کروڑ عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ 2025ء سے 2030ء کے دوران پاکستان دنیا کا نمبر ون ملک ہو گا جہاں پانی نایاب ہو جائے گا۔ شہری بوند بوند کو ترسیں گے اور اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ 2030ء کے بعد ’’ واٹر وار‘‘ شروع ہو جائے۔ یہ بات مت بھولیں کہ
پاکستان میں پانی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے جس سے ملک کی معیشت کے علاوہ زرعی شعبہ اور گھریلو صارفین کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، پانی کے بحران کی بہت سی ٹیکنیکل وجوہات ہیں جن میں حکومت کی ناقص منصوبہ بندی، پانی کا ضیاع ، ڈیموں کا بروقت تعمیر نہ ہونا، نہروں اور دریائوں کے نظام میں بہتری نہ لانا، بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہ کرنا اور دیگر شامل ہیں۔ موجودہ حکومت سابقہ حکومت کو اس کی ذمہ دار قرار دے رہی ہے، وزیر خزانہ نے اس کی وجوہات بھی بیان کی ہیں، تین دہائیاں قبل سطح زمین سے 35فٹ گہرائی میں پانی موجود تھا جو اب 600فٹ تک جا پہنچا ہے۔ 2009ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030ء تک ترقی پذیر ممالک میں پانی کی طلب 50فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق نومبر 2025ء تک آدھے سے زائد دنیا پانی کی قلت اور کسی حد تک خشک سالی کا شکار ہوجائے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدھی سے زیادہ دنیا پانی سے محروم ہو جائیگی۔
اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کے مطابق دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے زیرِاثر ہے اور یہی موسمیاتی تبدیلیاں پانی کے شدید بحران کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ غیر متوقع بارشوں اور بڑھتے درجۂ حرارت کی وجہ سے بھی پانی کا بحران دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر یہی حالات رہے تو کچھ نیم بنجر اور بنجر علاقوں میں 24 سے 700ملین افراد کو 2030ء تک نقل مکانی کرنی پڑے گی۔ڈبلیو آر آئی کے مطابق پانی کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ پانی کی جنگ میں اسرائیل، لیبیا، افغانستان، یمن، شام اور عراق شامل ہیں۔ ایکوا ڈکٹ کے ڈیٹا کے مطابق یہ بات بھی منظرِ عام پر آئی ہے کہ معاشی اور سماجی عوامل پانی کے مسائل پیدا کر رہے ہیں مگر بہتر واٹر مینجمنٹ سے ان مسائل کی روک تھام ممکن ہے۔ اس کی بہترین مثال سنگاپور ہے۔ اسرائیل بھی واٹر مینجمنٹ کے لیے بہترین ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے۔
ملک میں پانی کے مسلسل بحران نے بدتر صورت اختیار کر لی ہے، گزشتہ روز دریائوں کے پانی کی مجموعی فراہمی میں 97ہزار کیوبک فٹ فی سیکنڈ ( کیوسک) تک کمی آئی ہے جس سے قومی سطح پر پانی کی قلت 29 فیصد کے مقابلے میں51 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ( 30اپریل) یہ تعداد ایک لاکھ 21ہزار کیوسک تھی، جبکہ اس دن کیلئے 5سال کی اوسطاً سپلائی ایک لاکھ 57ہزار 800کیوسک ہے۔ ہفتہ کے روز 97ہزار کیوسک بھی جمعہ کے روز فراہم کئے جانے والے 11ہزار کیوسک کے مقابلے میں بہتری کو ظاہر کرتے ہیں۔ حالیہ صورتحال کے مطابق دریائے کابل سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں 10سال کی اوسط 41200کیوسک تک تھی جوکم ہو کر 16ہزار 700کیوسک پرپہنچ گئی ہے۔ دریائے چناب سے سپلائی اس کی تاریخی اوسط 26ہزار 300کیوسک کے مقابلے میں 12ہزار 300کیوسک ہوگئی ہے جبکہ دریائے جہلم سے 52ہزار 300کیوسک کی اوسطاً سپلائی کے مقابلے میں موجودہ سپلائی 31ہزار 500کیوسک رہ گئی ہے۔ پانی کی قلت سے متاثر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ( ارسا) نے پنجاب کو اس کی ایک لاکھ 5ہزار 500کیوسک کی طلب کے برعکس صرف 51ہزار 400کیوسک پانی فراہم کیا ہے جبکہ سندھ کی 67ہزار 100کیوسک طلب کے برعکس 32ہزار 600کیوسک پانی فراہم کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں وفاقی اکائیوں کو پانی کی 51فیصد قلت کا سامنا ہے، ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں منگلا جھیل میں ایک لاکھ ایکڑ فٹ پانی موجود تھا جب کہ اس کی گنجائش 73لاکھ ایکڑ فٹ ہے ۔تربیلا جھیل کی بات کی جائے تو یہ 22فروری کو ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی تھی اور گزشتہ 67دنوں میں بحال نہیں ہوئی۔ ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق، سپلائی میں پہلے 29فیصد کی کمی آئی تھی، ملک کو اپریل کے دوران 86لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملنا چاہئے تھا جب کہ حقیقی طور پر اسے 54لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملا جو 38فیصد کم ہے۔
سندھ حکومت نے وفاق سے 1991میں کیے جانے والے پانی کے معاہدے کے تحت صوبوں میں پانی کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا ہے، سندھ میں فصلیں پانی کی قلت کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں اور پھلوں کو نقصان ہو رہا ہے سیلاب میں وافر پانی کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہیں کیا گیا ڈیموں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں کیا گیا، ڈیموں میں بجلی کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے حوالے سے اقدامات نہیں کئے گئے ، بجلی کا بھی شدید بحران پیدا ہو گیا ہے اور سی پیک اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے بھی خاطر خواہ منصوبہ بندی نہیں کی۔ نئے ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر بھی پانی کے بحران کا سبب بنی ہے۔ پاکستان میں سیلاب میں وافر پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوا۔ پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا 7ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ بند ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے 15000ارب روپے کا خسارہ گیس کی مد میں سابقہ حکومت نے چھوڑا ہے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ 2024ء میں مکمل ہونا تھا جو تاحال تاخیر کا شکار ہے، علاوہ ازیں، شہریوں میں پانی کے بچائو کے لیے آگاہی مہم کو بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف پانی میں اضافہ اور دوسری طرف پانی کا بچائو ممکن ہو سکے اور نہروں اور دریائوں میں پانی کے بہائو میں بھی اضافہ ہو۔

جواب دیں

Back to top button