Column

اسرائیلی فسطائیت کربناک مناظر دل کو فرزا رہے ہیں

تحریر : محمد وقار اسلم
اسرائیل کی جارحیت ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے جو معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو نگل رہا ہے۔ یہصض جنگ عالم اسلام کے لیے ایک تقدیر ساز مسئلہ بن چکی ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب، عقائد اور اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک ہو جانا چاہیے تاکہ حریم اسلام کی حفاظت کی جا سکے اور اسلامی مقدسات کی پامالی کو روکا جا سکے۔ دو ارب سے زائد مسلمانوں کا قبلہ اول فلسطین ہے، اور 1948ء میں جب اسرائیل نے ایک چھوٹے سے ملک کے طور پر وجود میں آ کر صیہونیوں کے قبضے میں لے لیا، تب سے فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ اسرائیل کا جارحانہ رویہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خونریزی کا باعث بن رہا ہے۔یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ اپنی جارحیت اور نسل کشی کی ذمہ داری دیگر مقامات پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے دعوے کہ وہ ’’ سیناگرگ‘‘ ( یہودی عبادت گاہوں) کی حفاظت کر رہا ہے، بالکل جھوٹے ہیں۔ درحقیقت، ان عبادت گاہوں کا فلسطین میں کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے، اور اسرائیل نے محض یہودیوں کے مفاد کے لیے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔ ایسا کرنے سے اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔
پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کی خاموشی اور منافقت، اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک داغ بن کر رہ گئی ہے۔ جب تک اسلامی ممالک کے حکمران اپنے ذاتی مفادات سے باہر نکل کر فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تب تک اس خطے میں امن قاءم نہیں ہو سکے گا۔ عالمی سطح پر اسرائیل کی نسل کشی اور ظلم کے خلاف مسلمانوں کا آواز اٹھانا بے حد ضروری ہے، کیونکہ عالمی برادری، خصوصاً امریکی قیادت، نے ہمیشہ اسرائیل کے مفاد میں فیصلہ کیا ہے۔
فلسطین کی موجودہ صورتحال اور مظلوم فلسطینیوں کی حالت، عالمی سطح پر ایک اہم انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اسرائیل کی بے گناہ فلسطینیوں کے قتل میں مزید شدت اور تیزی آئی ہے۔ اگرچہ حماس اور حزب اللہ جیسے جہادی گروہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، مگر ان کی قربانیوں کے باوجود، وہ اسرائیل کی دہشت گرد کارروائیوں کے سامنے بے بس ہیں۔ عالمی برادری کے خاموش رہنے کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام کا قتل عام رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
اب وقت آ چکا ہے کہ مسلم دنیا اپنے مفادات سے بلند ہو کر یکجہتی کا مظاہرہ کرے اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے میدان عمل میں آئے۔ ہمیں اپنے عزم کو مضبوط کرتے ہوئے اسراءیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی اور فلسطین کے لیے انصاف کے حصول کی کوششوں میں حصہ ڈالنا ہوگا۔ فلسطین کی آزادی کا راستہ عالمی برادری کی بے حسی اور اسرائیلی طاقت کے سامنے ایک اہم چیلنج ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کی بربریت اور خونریزی کا سدباب کرنا صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری مسلم اُمہ کا فرض بنتا ہے۔ فلسطین کے مسئلے کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسلم حکمران اسرائیل
کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کے خلاف یکجا نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنے اتحاد کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ اس بے رحمانہ جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ ایک کربناک لمحہ ہے جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں کے دعویدار ممالک، جو انسانی حقوق کی ٹھیکیداری کا لبادہ اوڑھے پھرتے ہیں، آج فلسطین کے جلتے ہوئے آنگن کے سامنے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اُن کے لبوں پر انسانیت کی حرارت ماند پڑ چکی ہے اور اُن کے ضمیروں پر منافقت کا پردہ پڑ چکا ہے۔
غزہ پٹی، جو محض 140مربع میل کے رقبے پر مشتمل ہے، ایک قید خانہ بن چکی ہے جہاں 22لاکھ سے زائد فلسطینی زندگی کے بدترین دن گزار رہے ہیں۔ جنوبی غزہ میں صورتحال مزید بھیانک ہے، جہاں ہر طرف تباہ شدہ عمارتیں، زخمی جسم، اور شہداء کے جنازے نظر آتے ہیں۔ ان معصوم انسانوں کی چیخیں عالمی اداروں کے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔ ان کی آہ و بکا اُن ایوانوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی جہاں صرف تیل کی دولت، اسلحے کے سودے اور سیاسی مفادات زیر بحث آتے ہیں۔
اور یہ سب اُس وقت ہو رہا ہے جب اسرائیل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ محض اپنی ’’ عبادت گاہوں‘‘ یعنی ان جھوٹے Synagoguesکی حفاظت کر رہا ہے، جو حقیقت میں اُس کی سیاسی اور عسکری جارحیت کی علامت بن چکے ہیں۔ اس سرزمین پر جو کہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا مشترکہ تاریخی ورثہ تھی، وہاں صرف ایک نسل کے غلبے کا خواب مسلط کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یاسر عرفات، جس نے فلسطینیوں کے لیے امن کی کوششوں کا آغاز کیا، اُس کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اُس کی امن کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا۔ محمود عباس، جو آج بھی فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے، عالمی برادری کی بے حسی کا سامنا کر رہا ہے۔ اوسلو معاہدہ، جس پر کبھی امن کی امید کی بنیاد رکھی گئی تھی، صیہونی ہٹ دھرمی اور امریکی دوہرے معیار کی نذر ہو چکا ہے۔
اور یہ مت بھولیے کہ اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم یِتزاک رابن، جس نے فلسطین کے ساتھ امن کی بات کی، اُسے بھی صیہونی انتہا پسندی نے قتل کر دیا۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ یہ ریاست کسی امن، انصاف یا بقائے باہمی کے اصول کو تسلیم نہیں کرتی۔
جہاں پوری اسلامی دنیا اپنے مفادات کے حصار میں قید ہو چکی ہے، وہاں فلسطینیوں کی مدد کو صرف غیرتِ ایمانی رکھنے والی تنظیمیں جیسے حماس، حزب اللہ، اور جہادِ اسلامی میدان میں نظر آتی ہیں۔ یہ تنظیمیں، عالمی طاقتوں کے دھمکیوں کے باوجود، اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر مظلوموں کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہیں۔ شہادتیں اُن کے لیے شکست نہیں، بلکہ سربلندی کی علامت ہیں۔ٹرمپ کی صدارت کا دوسرا دور 2025ء میں شروع ہوا۔ اپنے انتخابی منشور میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن لائے گا۔ اس کے وعدے کے مطابق ایک 17دن کا سیز فائر نافذ کیا گیا، جو محض ایک سراب ثابت ہوا۔ اسرائیلی جارحیت نے اس وقفے کو بھی خون میں ڈبو دیا۔ ٹرمپ کی یہ سفارتی ناکامی دنیا پر واضح کر گئی کہ طاقتوروں کے وعدے محض وقتی ہمدردی کے نعرے ہیں۔
پوری دنیا کی نظریں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور او آئی سی پر لگی ہوئی تھیں، مگر وہ سب خاموش بیٹھے رہے، جیسے کہ فلسطینیوں کی زندگی کی کوئی قیمت ہی نہ ہو۔ اسی جدوجہد میں حماس کے سینئر رہنما، اسماعیل ہنیہ، بھی شہید کر دئیے گئے۔ ان کی شہادت نے نہ صرف فلسطینیوں کو رنج میں ڈالا بلکہ پوری امت میں سوگ کی کیفیت طاری کر دی۔ ان کے قریبی ساتھی، حُسام بدران، نے اب جنگ بندی کو ضروری قرار دیا ہے، کیونکہ مسلسل تباہی نے غزہ کو ملبے میں بدل دیا ہے۔ تل ابیب سے لے کر رفح تک، ہر گلی آہوں سے گونج رہی ہے، اور ہر آنکھ سوال کر رہی ہے: کب تک
فلسطین کی سرزمین صرف خون مانگتی جا رہی ہے۔ دنیا خاموش ہے۔ عرب سربراہان مصلحتوں میں دفن ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کردار محض قراردادوں اور تشویش کے بیانات تک محدود ہے۔ مغرب کی روشن خیال ریاستیں، آزادیٔ اظہار کے نام پر مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے خاکے تو شائع کرتی ہیں، مگر فلسطینی بچوں کی لاشیں دیکھ کر زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے روئیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم آواز بنیں ان بچوں کی، جو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے شہید ہو گئے۔ فسطائیت کا یہ طوفان تب ہی رکے گا، جب دنیا مظلوم کے ساتھ کھڑی ہو گی، اور ظالم کو ظالم کہنا سیکھے گی۔ بصورت دیگر، غزہ کا ہر دن قیامت بن کر ابھرتا رہے گا، اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

جواب دیں

Back to top button