پاکستان کا سماجی تحفظ کی جانب سفر : عالمی رجحانات اور مقامی چیلنجز

تحریر : عمر شیخ
پاکستان میں تقریباً 40 فیصد آبادی غربت یا غربت کے خطرے سے دوچار ہے، جبکہ تقریباً 25.3فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 30سے 35فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 10سے 15 فیصد ہے۔ سماجی تحفظ کی کمی، معاشی تفریق اور معاشرتی بے ضابطگیوں کے قریبی مطالعے سے پاکستان میں غربت کے اسباب چند ذیل ہیں: معاشی عدم مساوات، بے روزگاری، تعلیم و ہنر کی کمی، آبادی میں اضافہ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کرپشن، ناقص حکمرانی اور اس وقت انتہائی اہم قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ یہ تمام مسائل ایسے ہیں جن سے روزمرہ کی زندگی میں ہمیں اور لاکھوں دیگر افراد کو سامنا ہے۔ ریاست اس سے نبرد آزما ہونے کی کوشش میں مصروف تو ہے لیکن ایک مسلمان فلاحی ریاست کا تصور موجود ہوتے ہوئے ابھی منزل نہیں پا سکی۔ فلاحی ریاست جو اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے۔ صحت، تعلیم، روزگار اور سماجی تحفظ ہر فرد کا حق تصور کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ریاست کو یتیم، بیوہ، مسکین، اور محتاج کی کفالت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔ پاکستان کا آئین بھی فلاحی ریاست کے اصولوں کی ضمانت دیتا ہے ، مگر عملدرآمد کمزور ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ بھی ایک اسلامی فلاحی ریاست کے حامی تھے اور اسی نظریے کے تحت پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے
دیگر لا تعداد ممالک نے اسلامی فلاحی ریاست کے ماڈل کو مد نظر رکھ کر اپنے شہریوں کے لیے فلاحی اقدامات کیے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:سوئیڈن ، ناروے اور ڈنمارک میں شہریوں کو تعلیم، صحت اور پنشن کی مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ سویڈن میں GDP کا تقریباً 28 فیصد سماجی تحفظ پر خرچ ہوتا ہے۔ کینیڈا میں کم آمدنی والے خاندانوں کو مالی معاونت اور بچوں کی نگہداشت میں رعایت دی جاتی ہے۔ جرمنی میں بے روزگار افراد کے لیے انشورنس اسکیمز اور بوڑھوں کے لیے پنشن کا نظام ہے ۔ ملائیشیا میں بی 40 پروگرام کے تحت غریب طبقے کو سعیدی، تکنیکی و پیشہ ورانہ تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ملائشیا غربت کی شرح کو 50 سال میں 50 فیصد سے کم کر کے 6 فیصد پر لے آیا ہے۔ ترکی نے مشروط کیش ٹرانسفر سے بچوں کی سکول میں حاضری 20 فیصد تک بڑھائی ہے۔ ترکی میں بے سہارا بچوں، بیوائوں اور بزرگوں کے لیے مالی امداد اور مفت علاج کی سہولت بھی دی جاتی ہیں۔پاکستان سماجی تحفظ پر GDPکا صرف 11 فیصد خرچ کرتا ہے۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے مختلف فلاحی اقدامات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کیے جا رہے ہیں ۔ وفاق میں پاکستان میں بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام سے فائدہ حاصل ہوا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)پاکستان کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا منصوبہ ہے، جس کے تحت تقریباً 9 ملین مستحق خواتین کو مالی معاونت دی جارہی ہے ۔ پروگرام کے ذریعے تعلیمی وظائف بھی دیے جا رہے ہیں، جن سے تقریباً ساڑھے 8 ملین بچے مستفید ہو چکے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ کے تحت نیشنل سوشیع اکنامک رجسٹری میں 35 ملین سے زائد گھرانوں کا ڈیٹا آپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ پروگرام کی رسائی اور شفافیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
حکومت پنجاب کا وژن 2024۔2030 صرف اور صرف فلاح عامہ ہے، جس کے تحت پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی و دیگر ڈپارٹمنٹ مختلف پروگرامز کے ذریعے عوام کو سہولت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ بے گھر اور کم آمدنی والے افراد کو سنتے یا منت گھروں کی فراہمی کا اپنا گھر اپنی چھت پروگرام، عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے لیے مریم کی دستک، مستحق والدین کو اجتماعی شادیوں کے ذریعے بیٹیوں کی شادی جیسے اہم فریضے کی باعزت ادائیگی کے لیے پنجاب دھی رانی پروگرام، معذور افراد کی مالی معاونت صحت کی سہولیات اور روزگار کے مواقع کے لیے ہمت کارڈ، پنجاب کے کاشتکاروں کے لیے کھاد بیچ اور زرعی مشینری خریدنے میں آسانی کی لیے کسان کارڈ، ذہین اور ہونہار طلباء کو وظائف دینے کے لیے ہونہار کارڈ، دور دراز علاقوں میں عوام کو بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کلینک آن ویلز، رمضان کے مقدس مہینے میں غریب اور مستحق خاندانوں کی 10000روپے کی مالی معاونت کے لیے نگہبان رمضان پیکیج، حاملہ خواتین اور 2سال تک کے بچوں کی غذا اور نشونما کے لیے 23000روپے کی مالی معاونت کا آغوش پروگرام 3 سے 5 سال کی عمر کے بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کا بنیاد پروگرام ، سکولوں میں آٹھویں سے دسویں جماعت کی طالبات کی 80 فیصد حاضری پر وظیفے کا زیور تعلیم پروگرام ، 18سے 35سال تک کے شادی شدہ جوڑوں کو 150000روپے تک کے پیداواری اثاثہ جات دینے کا خود مختار پروگرام ، خواجہ سرا کو سماجی تحفظ مالی معاونت صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا مساوات پروگرام، تیزاب گردی کا شکار افراد کو علاج اور باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا نئی زندگی پروگرام، معذور افراد کی غیر مشروط مالی معاونت کا ہمتقدم پروگرام شامل ہیں۔ سندھ سوشل پروٹیکشن اسٹریٹیجی، بینظیر و مین سپورٹ پروگرام، صحت کارڈ، تعلیم
وظائف، غذائی سبسڈی اسکیمز، مامتا وغیرہ شامل ہیں ۔ خیبر پختو نخوا میں صحت انصاف کارڈ، بے سہارا افراد کے لیے پناہ گاہیں، نوجوانوں کو روزگار کے لیے اسکل ڈیولپمنٹ پروگرامز ہیں۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا مگر آبادی کے لحاظ سے کم گنجان صوبہ ہے، فاصلے زیادہ ہونے کی وجہ سے معاشرتی و اقتصادی ترقی کے چیلنجز بھی زیادہ ہیں۔ یہاں سماجی تحفظ کے مسائل میں غربت، بے روزگاری، تعلیم تک رسائی، صحت کی سہولیات کا فقدان، پینے کا صاف پانی اور خوراک کی کمی، قدرتی آفات ، ماحولیاتی چیلنجز اور امن و امان کی صورتحال شامل ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کی سب سے کم شرح خواندگی ہے، جہاں اعداد و شمار کے مطابق صرف تقریباً 41 فیصد آبادی خواندہ ہے، جب کہ ملک بھر کی اوسط شرح خواندگی 59 فیصد ہے۔ دیسی علاقوں میں خاص طور پر خواتین کی شرح خواندگی اس سے بھی کم ہے۔ بلوچستان میں ماں اور بچے کی اموات کی شرح پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ مائوں کی شرح اموات 100000زندہ پیدائشوں میں 298 ہے ، جبکہ بچوں کی شرح اموات 1000زندہ پیدائشوں میں تقریباً 66ہے، جو کہ قومی اوسط شرح سے کہیں زیادہ ہے۔بلوچستان کے سماجی بہبود / تحفظ کے پروگرامز میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)کے ذریعے مستحق خواتین کو مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے ۔ خاص طور پر بیوہ، معذور، اور بے سہارا خواتین اس پروگرام میں شامل ہیں۔ بلوچستان کا محکمہ سماجی بہبود مختلف اقسام کے پروگرام چلاتا ہے جن میں معذور افراد، یتیم بچوں، بزرگ شہریوں، اور نشے کے عادی افراد کی بحالی شامل ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت ایک مربوط سماجی تحفظ پالیسی پر کام کر رہی ہے تاکہ تمام سروسز کو یکجا کر کے پائیدار اور شفاف نظام بنایا جاسکے۔ یونیسیف، ڈبلیو ایف پی یو این ڈی پی اور دیگر مقامی و بین الاقوامی این جی اوز مختلف پروگراموں کے ذریعے بلوچستان میں سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو وسعت دے رہی ہیں، مثلاً غذائی تحفظ، تعلیم، صحت اور خواتین کی فلاح کے منصوبے ۔ گلگت بلتستان و آزاد کشمیر میں صحت، تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں امدادی پروگرامز، مقامی حکومتوں کی جانب سے مخصوص سماجی تحفظ اسکیمز کا اجراء شامل ہیں۔خواتین اور بچے سماجی تحفظ کا مرکزی نکتہ ہیں۔ ماں اور بچے کی صحت میں سرمایہ کاری، مستقبل کی نسلوں کی فلاح کی ضمانت ہے لیکن اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح 42 فیصد فی 1000 پیدائش ہے اور حاملہ خواتین میں سے صرف 50 فیصد مناسب غذا یا صحت کے لیے باقاعدگی سے معائنہ کرواتی ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں غذائی قلت کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے۔ کل آبادی میں تقریبا 3 سے 4 ملین خواتین بیوہ ہیں جو کل آبادی کا 8 فیصد ہے، جن میں سے اکثر خواتین کو کوئی مالی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ملک میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ تعداد پاکستان کی کل اسکول جانے والی عمر کے بچوں کا تقریباً 44 فیصد بنتی ہے۔ پاکستان میں سالانہ زکوٰۃاور خیرات کا حجم 400 سے 500 ارب روپے سے زائد ہے، جو کہ دنیا میں سر فہرست ممالک میں ہے۔ مگر یہ پیسہ غیر منظم طریقے سے خرچ ہوتا ہے۔ اس کے لیے ریاستی سطح پر ڈیجیٹل زکوٰۃاور وقف پورٹل بنایا جائے اور شفافیت اور مستحقین کی نشاندہی کے لیے ایک قومی ڈیٹابیس تیار کیا جائے۔ پاکستان میں تقریباً 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عم ر ہے، جن میں سے لاکھوں بے روزگار ہیں۔ یہی وہ ملک و قوم کا اثاثہ ہیں جو کہ مالی مسائل اور مایوسی کا شکار ہو کر غلط عناصر کے زیر اثر آکر اپنے آپ کو ضائع کر لیتے ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 11.5 فیصد ہے۔ صرف 6 فیصد نوجوان کسی ٹیکنیکل یا ووکیشنل ٹریننگ پروگرام کا حصہ بنتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے ہر ضلع میں ہنر مراکز بنائے جائیں۔ ان کے لیے سٹارٹ اپ فنڈز میں اضافہ کیا جائے ۔پاکستان میں سماجی تحفظ صرف ایک فلاحی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشی ترقی، امن اور قومی استحکام کا بنیادی ستون ہے۔ اگر پاکستان اپنے جی ڈی پی کا محض 1 فیصد سماجی تحفظ پر خرچ کر کے چند پروگرامز چلا رہا ہے تو سوچا جا سکتا ہے کہ اگر یہ تناسب عالمی فلاحی ریاستوں کی طرح 5 فیصد یا اس سے زائد ہو جائے تو سماجی و معاشی اثرات کتنے مثبت ہوں گے۔ خواتین کی تعلیم، صحت، اور معاشی خود مختاری نہ صرف نسلوں کی بہتری کی ضمانت ہے بلکہ قومی معیشت کے لیے بھی نفع بخش سرمایہ کاری ہے۔ نوجوان پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہیں، اور اگر ان کے لیے باعزت روزگار، ہنر، اور رہنمائی کے مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ طبقہ نہ صرف معاشی ترقی کا محرک بن سکتا ہے بلکہ شدت پسندی اور منفی عناصر کے اثر سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں سرمایہ کاری طویل المدتی سماجی تحفظ کی بنیاد رکھتی ہے، جبکہ امن، انصاف اور مواقع کی مساوی فراہمی پائیدار ترقی کی ضمانت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی تحفظ کے اقدامات کو قومی ترقیاتی ایجنڈے کا مرکزی جزو بنایا جائے، تاکہ ایک باوقار، محفوظ اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔