اقبال مسیح کی یاد میں تقریب

تحریر : احمد نوید
اقبال مسیح کی یاد میں گزشتہ روز الحمرا آرٹس کونسل میں شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ یہ تقریب شعور ویلفیئر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام منعقد کی گئی تھی، جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ تقریب میں شرکت کے بعد احساس ہوا کہ ڈاکٹر شاہدہ نعمانی صاحبہ جیسے بہت سے لوگ کتنی خاموشی کے ساتھ کتنے بڑے کام کر رہے ہیں۔
اقبال مسیح 1983ء میں ضلع گوجرانوالہ کے نواحی شہر مرید کے میں پیدا ہوا۔ اقبال کے والد نے اس کے بڑے بھائی کی شادی کے لیے چند سو روپے کا قرض ارشد نامی ایک مقامی تاجر سے لے رکھا تھا مگر ادھار ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے چار سالہ اقبال کو مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ چھ سال تک کے لیے اقبال دن میں چودہ گھنٹے تک کام کرتا رہا مگر قرض تھا کہ جوں کا توں موجود رہا۔ جب وہ دس سال کا ہوا تو اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا مگر پولیس کے مقامی افسران نے اس کو پکڑ کر دوبارہ اسی تاجر کے حوالے کر دیا۔ اب کی بار کام کا بوجھ مزید بڑھا دیا گیا مگر ایک ہی سال بعد اقبال پھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس دفعہ خوش قسمتی سے وہ چائلڈ لیبر کے خلاف سرگرم تنظیم کے پاس جا پہنچا، جنھوں نے پاکستانی قانون کی روشنی میں اسے غلامی کے طوق سے نجات دلائی۔ بعد ازاں اقبال مسیح اپنے ہی جیسے تقریباً تین ہزار ننھے مزدوروں کی رہائی کا مسیحا بنا۔ اقبال، جو گیارہ سال کی عمر میں بھی چار فٹ سے کم قد کا تھا۔ دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی۔ اسے عالمی ری بک یوتھ ان ایکشن ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے تحت سالانہ پندرہ ہزار امریکی ڈالر کی تعلیمی سکالر شپ دی گئی جبکہ برینڈیز یونیورسٹی نے اقبال کو کالج کی عمر تک پہنچنے پر مفت تعلیم دینے کا اعلان کیا۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے اس مجاہد کو پہلے سویڈن اور اس کے بعد امریکا میں اسکول کے بچوں سے بات چیت کرنے کے لیے بلایا گیا۔جہاں مقامی اسکولوں کے طالب علموں نے اپنے جیب خرچ سے ایک فنڈ قائم کیا جو آج بھی پاکستان میں بچوں کے بیس اسکول چلا رہا ہے۔ اسی دوران اقبال نے دو سالوں میں چار سال کے برابر تعلیم حاصل کی، حالانکہ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے بہت ہی چھوٹا دکھائی دیتا تھا مگر اس کا عزم بہت بڑا تھا۔
سال 1995میں جب اقبال امریکا سے واپس اپنے گائوں رکھ بائولی پہنچا تو 16اپریل کو جب وہ سائیکل چلا رہا تھا تو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے اس معصوم فرشتے کی زندگی چھین لی۔ یہ گناہ کن ظالموں نے کیا۔ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کو اسی تاجر نے مار ڈالا تھا۔ جس کے پاس وہ بچپن میں کام کرتا تھا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ کسی مقامی کسان کو اقبال مسیح کی نیک نامی ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اشرف ہیرو نامی ہیروئن کے عادی شخص نے اسے قتل کیا۔ اقبال کی موت کی خبر پر معروف امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ نے سرخی جمائی۔ آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کتنا بہادر تھا۔
اقبال کی موت کے بعد مقامی نوجوانوں نے کینیڈا میں فری دی چلڈرن نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی ،جبکہ اقبال مسیح شہید چلڈرن فائونڈیشن کا بھی آغاز کیا گیا جو جبری مزدوری کرنے والے بچوں کو علم کی روشنی کی طرف لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ سال 2009میں امریکی کانگرس نے سالانہ اقبال مسیح ایوارڈ کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد میں سے ہر سال کسی ایک کو دیا جاتا ہے۔ سال 2014میں جب بھارتی شہری کیلاش ستیارتھی کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا تو انھوں نے بھی اپنی تقریر میں اقبال مسیح کو خراج عقیدت پیش کیا۔
شعور ویلفیئر فائونڈیشن کو ڈاکٹر شاہدہ نعمانی صاحبہ چلا رہی ہیں ۔میں بلا شبہ ان خاتون کو ایک عظیم خاتون قرار دوں گا، جو عملی طور پر سماج کو بدلنے کا اور مثبت بنانے کا اہم ترین کردار ادا کر رہی ہیں۔ اقبال مسیح کی یاد میں تقریب میں وہ بچے بھی موجود تھے ،جو گلی محلوں میں جبری مشقت کا شکار ہیں ۔اس تقریب میں شرکت کر کے دل کو نہ صرف سکون ملا بلکہ انتہائی خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر شاہدہ نعمانی جیسے فرشتہ صفت لوگ کتنی خاموشی کے ساتھ معاشرے کی بھلائی کے لئے بے مثال خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہدہ نعمانی معاشرے میں نہ صرف جبری مشقت کے خلاف کام کر رہی ہیں ،بلکہ ماں گھر بنا کر انہوں نے بے سہارا خواتین اور بچیوں کو بھی ایک چھت مہیا کی ہے۔ جس کے نیچے نہ صرف وہ سکون کی زندگی گزار رہی ہیں بلکہ کسی نہ کسی ہنر سے مستفید بھی ہو رہی ہیں۔ میں ڈاکٹر شاہدہ کو ایک فرشتہ کہوں گا ، جن کا کہنا ہے۔
مو ج بڑھے یا آندھی آئے
دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے
گھر تو آخر اپنا ہے!
شعورویلفئیر فائونڈیشن کاویثرن ایک ایسے فلاحی معاشرہ کی تشکیل ہے، جہاں انسان خیر اور فلاح کے جذبہ کے ساتھ انسانیت کے لئے خیر رسان ہوں ۔ جس کے نتیجے میں سماج میں خیر چھا جائے۔ شعورویلفئیر فائونڈیشن فلاحی معاشرے کے قیام کی بنیاد فراہم کررہاہے ،جس میں بیداری ،شعور کے ذریعے افراد کی تیاری سے فلاحی نظام کی بنیاد تک رسائی ممکن ہوسکے ۔
ڈاکٹر شاہدہ نعمانی صاحبہ انسان دوست اور خدا کی رحمت سے سرشار ہیں۔اس لیے معاشرے میں خدا کی رحمت کا عملی نمونہ بند کر اس معاشرے کو خوبصورت بنا رہی ہیں۔وہ یتیم بے سہارا مستحق بچوں کی تعلیم، علاج ،روزگار اور انہیں ہنر مند بنا کر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے سرگرمی عمل ہیں۔وہ ماں گھر کے قیام کے ذریعے بے سہارا خواتین اور بچیوں کے لیے بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔شعور ویلفیئر فائونڈیشن جیسی فلاحی تنظیموں کو سراہا جانا چاہیے جن کا کہنا ہے کہ اگر آپ پیسوں سے مدد نہیں کر سکتے تو جس بھی شعبے میں آپ ماہر ہیں وہ ہنر بچو ں، بچیوں اور خواتین کو سکھا دیں تاکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکیں۔
ڈاکٹر شاہدہ نعمانی کے ساتھ این سی اے کے پروفیسر فخر اللہ طاہر، ناہید فخر، ڈپٹی رجسٹرار شہزاد تنویر صاحب ور کچھ این سی اے کے پاس آئوٹ طلبہ اس کارواں میں شامل ہیں۔یہ سب لوگ مل کر جو اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔وہ بے حد سراہے جانے کے لائق ہے۔اس تقریب میں شرکت کی دعوت پر میںپروفیسر فخر اللہ طاہر صاحب کا دل سے شکر گزار ہوں کہ اس تقریب میں شرکت کر کے دل نے کہا کہ شعورویلفئیر فائونڈیشن کے ساتھ مل کر واقعی کچھ کرنا چاہئے۔
تقریب میں شہزاد تنویرصاحب نے ایک نظم پڑھی تھی، جس کے دو اشعار پیش خدمت ہیں۔
بنے ہر شخص چراغِ رہ، اندھیروں میں اُجالا ہو
کاش جہالت سے نکلنے کا شعور آ جائے!
باقی سب تو مٹی ہو جانا ہے ایک دن
بس دلوں میں زندہ رہنے کا شعور آ جائے!