
تحریر : سی ایم رضوان
ان دنوں اگر ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اور مجموعی معاشی خرابی اور خوبصورتی کا جائزہ لیا جائے تو جہاں حکومتی اعداد و شمار اور معلومات عام پاکستانی کو تھوڑا حوصلہ دیتی ہیں لیکن اگر زمینی حقائق دیکھے جائیں تو یہ کہنا ہر گز یکطرفہ اور ناجائز نہ ہو گا کہ عام پاکستانی کے لئے روزانہ کے اخراجات پورے کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے دوسرے لفظوں میں عام پاکستانی کا جینا محال ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ خوشخبری اپنی جگہ درست کہ پاکستان سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والے دس ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے محکمہ برائے اقتصادی و سماجی امور کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 272ملین بیرونِ ملک مقیم افراد میں سے پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا حامل ملک ہے۔ یہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملکی معیشت اور ترقی کے لئے بھی ایک اہم ذریعہ آمدن ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات خلیجی ممالک، امریکہ، برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ سے موصول ہوئیں۔ یاد رہے کہ مالی سال 2022-23 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے پاکستان کو 26 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات بھیجیں جو نہ صرف زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ بنیں بلکہ ملک میں لاکھوں خاندانوں کے لئے سہارا بھی بنیں۔ اس سلسلے میں سعودی عرب ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ رہا جہاں سے تقریباً 4.4ارب ڈالر ( کل ترسیلات کا 24 فیصد) پاکستان بھیجے گئے۔ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے، جن سے جولائی تا فروری مالی سال 2024کے دوران 3.1ارب اور 2.7ارب ڈالر پاکستان آئے۔
ساتھ ہی یہ بدخبری بھی ہے کہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے پر عملداری کے باعث رواں سال گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مارکیٹ کی طلب کے پیش نظر گندم درآمد یا برآمد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا، گندم پالیسی کی تشکیل کے لئے وزیراعظم نے کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے قومی اسمبلی میں تحریری رپورٹ بھی جمع کرا دی ہے، جس کے تحت آئی ایم ایف معاہدے پر عملداری کے باعث رواں سال گندم نہیں خریدی جائے گی، مارکیٹ کی طلب کے پیش نظر گندم درآمد یا برآمد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا، گندم پالیسی کی تشکیل کے لئے وزیراعظم نے کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ دوسری جانب پنجاب حکومت نے کاشتکاروں کو صوبے سے باہر گندم کی نقل و حمل کی باقاعدہ اجازت دے دی ہے۔ یعنی گندم کی سمگلنگ کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے جس کے بعد کاشت کاروں کو اب بین الصوبائی سرحدوں پر گندم کی درآمد یا برآمد پر روک ٹوک نہیں ہو گی اور صوبے سے گندم کی نقل و حمل کی اجازت سے فصل کا پورا فائدہ مل سکے گا۔ ان دنوں جو سب سے خوفناک اور سنگین نوعیت کا اقدام اٹھائے جانے کی بازگشت ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری شروع نہ ہونے پر کسان پریشان ہیں جب کہ پنجاب حکومت کا گندم خریدنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے۔ اس حوالے سے محکمہ خوراک پنجاب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز مڈل مین کے بجائے کسانوں کو براہ راست فائدہ دینا چاہتی ہیں، حکومت کسانوں کا حق مار کر مڈل مین کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ ذرائع محکمہ خوراک کا کہنا ہے کہ پنجاب میں 22 لاکھ 70 ہزار ٹن گندم موجود ہے، پنجاب کے پاس ایک سال کی گندم ہے تو مزید کیسے خرید سکتے ہیں، پنجاب کو گندم پر لیا گیا 3 سو 55 ارب روپی کا قرضہ واپس کرنا ہے، گندم کی خرید پر ہر سال 125 ارب روپے مارک اپ میں دیا جاتا ہے جبکہ گندم کو سٹور کرنے اور سنبھالنے پر ایک ارب روپے سے زیادہ لگ جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اربوں روپے بچا کر کسانوں کو کسان کارڈ سمیت دوسری سہولیات دی جائیں گی۔ ذرائع محکمہ خوراک نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کسانوں کی 95 فیصد گندم فروخت ہو چکی ہے، اب کسانوں کا نام لے کر مڈل مین نے شور مچا رکھا ہے کہ گندم حکومت نے نہ خریدی تو کسان تباہ ہو جائے گا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق درآمد کی گئی گندم اور اسمگلنگ نہ ہونے کے باعث حکومت کی گندم فروخت نہیں ہوئی۔ دوسری جانب گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے متعلق یہی کہنا تھا اور یہی کہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہیں جنہیں مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے، درآمدات میں کمی لائی گئی ہے، کرنٹ اکا?نٹ سرپلس رہا ہے. پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں فنانشل لٹریسی بینکنگ اینڈ فنانس سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فنانشل لٹریسی کو فروغ دینے کے لئے اس طرز کے پروگراموں کا انعقاد خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022میں مہنگائی کا مسئلہ در پیش تھا، تب سے مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے، مانیٹری پالیسی کمیٹی کی توقع کے مطابق مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہمیں کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا، ایکسچینج ریٹ مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے کم ہو رہا ہے، ہم نے سخت فیصلے کیے ہیں درآمدات کو کافی حد تک کم کیا ہے. جمیل احمد نے کہا کہ 11ہزار تاخیر کی شکار درآمدات سے متعلق لیٹر آف کریڈٹ ( ایل سی) کے مسائل کو حل کیا جا چکا ہے، کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہوتا دیکھا گیا ہے، واضح رہے کہ کرنٹ اکائونٹ اس سال 7ملین ڈالر (70لاکھ ڈالر) سرپلس رہا ہے۔
ایک یہ بھی بری خبر ہے کہ آئی ایم ایف کی سفارش ہے کہ پٹرول پر 18فیصد کا سیلز ٹیکس عائد کیا جائے جو باقی مصنوعات پر عائد ہے۔ اگر ایسا ہوا تو جس سے ایم ایس اور ایچ ایس ڈی کی قیمتوں میں 47روپے فی لٹر اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے 5روپے فی لٹر کاربن لیوی بھی عائد کرنے کی تجویز دی ہے، جس سے ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس طرح سیلز ٹیکس اور کاربن لیوی عائد ہونے سے پٹرول کی قیمت 53روپے فی لٹر بڑھ جائے گی۔ دوسری جانب پٹرولیم ڈویژن نے حال ہی میں پٹرولیم لیوی 10روپے بڑھانے کے مقاصد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لیوی میں اضافہ بجلی سستی کرنے کے لئے کیا گیا تھا لیکن یہ فیصلہ گلے پڑنے کا خدشہ ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پٹرول پر سیلز ٹیکس کی شرح صفر فیصد ہے۔ یعنی کوئی سیلز ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا۔ واضح رہے کہ پٹرولیم لیوی ہی واحد بڑا ٹیکس ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی پاکستان درآمد کے وقت اس پر کسٹم ڈیوٹی بھی عائد ہوتی ہے۔
اس پر ستم یہ کہ مہنگائی 60سال کی کم ترین سطح پر آنے کے حکومتی دعوں کی بھی قلعی کھل گئی ہے اور گورنر سٹیٹ بینک نے آئندہ ماہ سے مہنگائی بڑھنے کا انکشاف کر دیا ہے۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2025میں ہم نے 0.7فیصد کی کم ترین سطح پر افراطِ زر دیکھی تاہم آئندہ ماہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا۔
زرعی نمو کم رہنے کی وجہ سے معاشی ترقی کی شرح نمو 3فیصد رہے گی، ان کا استدلال تھا کہ زرعی شعبہ کی نمو گزشتہ سال کے برابر رہتی تو معاشی ترقی کی شرح نمو 4.2فیصد ہوتی، تمام بڑے صنعتی شعبوں میں نمو دیکھی جارہی ہے۔ تین سال قبل درآمدات پابندیوں کی وجہ سے کم رہیں، اس سال نان آئل امپورٹ 2022سے بڑھ چکی ہیں، اس سال ماہانہ 3.8 ارب ڈالر کی نان آئل امپورٹ ہو رہی ہیں، سرکاری ذخائر سال کے اختتام تک 14 ارب ڈالر رہیں گے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے امریکی ٹیرف کے اثرات کے حوالے سے کہا کہ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ پر تھوڑا اثر آ سکتا ہے، تیل کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ ہو گا جبکہ مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت پر امریکی ٹیرف کا اثر محدود رہے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد خان نے کہا ہے کہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کی 2 ہفتے تک جاری رہنے والی اسپرنگ میٹنگز کی وجہ سے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کی اگلی قسط موصول ہونے میں تاخیر ہو سکتی ہے جب کہ آئندہ ماہ سے افراط زر میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی افراتفری کے موجودہ دور میں عام پاکستانی کی پریشانی میں نہ تو کمی آئی ہے اور نہ ہی ایسی کسی توقع کی گنجائش موجود ہے البتہ حکمرانوں کی آنیاں جانیاں دیکھی جا رہی ہیں اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے طبقات لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ سرکاری اداروں میں کرپشن بھی عروج پر ہے اور بیروزگاری کی بھی انتہا ہو چکی ہے۔ ان حالات میں کوئی معجزہ ہی پاکستانی قوم کو مایوسی سے بچا سکتا ہے۔