سیاسیات

بی این پی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ جاری: ہارڈ سٹیٹ پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ

بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس نے قومی سلامتی کانفرنس میں بلوچستان کے مسئلہ کے حل کے لیے منعقدہ حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں بالخصوص ہارڈ سٹیٹ پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس پیر کو کوئٹہ سے متصل کوئٹہ کراچی ہائی وے پر لکپاس کے مقام پر منعقد ہوئی جہاں بلوچستان نیشنل پارٹی 28 مارچ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنمائوں اور گرفتاریوں کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں جن دیگر جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی ان میں جمیعت العلما اسلام، نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، پشتون تحفظ موومنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، وحدت المسلیمین، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی (بلوچ گروپ)، جمہوری وطن پارٹی کے رہنمائوں کے علاوہ مرکزی انجمن تاجران کے عہدیداروں اور قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔

سردار اخترمینگل، مولانا عبدالغفور حیدری، سردار کمال خان ببنگلزئی، اصغرخان اچکزئی، میر اسراراللہ زہری، داؤد شاہ کاکڑ اور عبدالمتین اخوندزادہ کے علاوہ دیگر جماعتوں کے رہنمائوں نے خطاب بھی کیا۔

کانفرنس کے بعد لکپاس ڈیکلریشن کے نام سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبرگ بلوچ اور صبغت اللہ کی مبینہ غیر قانونی گرفتاری، بلوچستان کی وفاقی آئینی حیثیت کو ایک نوآبادی میں تبدیل کرنے کے عمل کی مذمت کی گئی اور تمام گرفتار افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’دھرنے میں شریک سیاسی جماعتیں ’بلوچستان کی وفاقی وحدت کی حیثیت سے بحالی، خفیہ اداروں کی مداخلت، سیاسی جمہوری جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور بی این پی کی پرامن لانگ مارچ کو روکنے، سردار اختر مینگل سمیت سیاسی قائدین کو خودکش حملہ آوروں کے رحم و کرم پر لکپاس کے مقام پر روکنے کے عمل کو انتہائی تشویش اور غم و غصہ کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔‘

اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’سیاسی و جمہوری جماعتیں بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے آئینی اور غیر متشددانہ جدوجہد کی نہ صرف حمایت کرتی ہیں بلکہ ریاست اور ریاستی اداروں کی جارحانہ پالیسی کو وفاق کے لیے تباہ کن سمجھتی ہیں۔‘

دھرنے میں شریک سیاسی جماعتون نے بلوچستان کے مسئلہ کے حل کے لیے منعقدہ حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں بالخصوص ہارڈ سٹیٹ پالیسی کو ملک میں مزید انتشار اور اضطراب کا باعث قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ریاست ایسے سخت گیر پالیسیوں سے نہ صرف اجتناب کرے بلکہ آئین پر مکمل عملداری کویقینی بناتے ہوئے بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرے۔

کانفرنس میں متعدد قراردادیں منظور کی گئیں جس میں دوران لانگ مارچ و دھرنا بی این پی کے کارکنوں کو ہراساں کرنے، گرفتار کرنے اور وڈھ میں پرامن احتجاج کرنے کے دوران عنایت اللہ لہڑی کی فورس کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت اور دیگر کارکنوں کو زخمی کرنے کی مذمت کی گئی اور ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

کانفرنس میں ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں بشمول عمران خان، علی وزیر، ڈاکٹر یاسمین سمیت پی ٹی آئی، بی این پی اور سندھ میں کینال تحریک میں گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

ایک اور قرار داد میں بلوچستان کے قدرتی وسائل سے متعلق مبینہ جاری قابضانہ رحجانات قانون سازی اور معاہدات بشمول مائنز اینڈ منرل ایکٹ 2025 کی فوری تنسیخِ، پی پی ایل معاہدے کے خاتمے اور ریکوڈک معاہدے میں بلوچستان کے 50 فیصد حصہ داری کے حق کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

کانفرنس میں چمن میں دو سال سے جاری دھرنے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ چمن سے جیونی، تفتان سے مند اور ماشکیل سے پنجگور تک سرحدی تجارت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔

جواب دیں

Back to top button