You are at risk

صفدر علی حیدری
ایک جملہ درسی کتاب میں پڑھا تھا، جو بڑا خوب صورت بڑا بامعنی لگا
When you at road , you are at risk .
یعنی جب پر سڑک پر ہوتے ہیں، آپ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔ یہ خطرات ترقی پذیر ملکوں میں انتہا درجے کے ہوتے ہیں ۔ ترقی پذیر ملکوں کی سڑکیں ، وہاں کی گاڑیاں اور ٹریفک کا پورا ناکارہ ہوتا ہے۔ آپ ایک اور چیز بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں اول تو وہاں حادثات کم ہوتے ہیں۔ اور ہوتے بھی ہیں تو اموات کی تعداد خاصی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ حادثات کو روکنے کے ہمارے یہاں انتظامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ صرف ون وے سڑکیں بنا کر ہم اس خطرے سے کافی حد تک بچ سکتے ہیں۔ مگر کرپٹ حکمران کا پیٹ بھرے تو وہ ملک و قوم کا کچھ سوچیں ۔ ان کی ہمتیں شکم تک محدود ہیں ۔ اس سے آگے ان کو نظر کچھ نہیں آتا۔
ابھی اموات کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ اس کی دل سوز مثال سانحہ جڑانوالہ ہے۔ وہاں ایک تیز رفتار بس نے موٹر سائیکل رکشہ کو کچلنے ڈالا جس سے گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ یہ حادثہ
جڑانوالہ کے علاقے لنڈیانوالہ میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق بدقسمت خاندان کے افراد لوڈر رکشہ پر سوار ہو کر جا رہے تھے کہ پیچھے سے آنے والے تیز رفتار اور بے قابو بس رکشہ کو روندتی ہوئی گزر گئی۔ حادثہ میں جاں بحق ہونے والوں میں چھ خواتین بھی شامل ہیں۔ المناک حادثہ کی خبر گائوں میں پہنچتے ہی ہر طرف کہرام برپا ہو گیا اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اس المناک ٹریفک حادثہ میں جاں بحق افراد کی تعداد اب 14ہو چکی ہے ۔ ایس ایس پی پٹرولنگ مرزا انجم کمال نے ٹریفک حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا نوٹس لیتے ہوئے گشت پر مامور انچارج ہیڈ کانسٹیبل، تین کانسٹیبلان امداد، شہباز اور وقاص کو معطل کر دیا اور حکم دیا کہ معطل اہلکاروں کے خلاف مزید کارروائی کرکے غفلت سامنے آنے پر سخت محکمانہ کارروائی کی جائے۔ لنڈیانوالہ پولیس نے حادثے کا مقدمہ درج کر لیا اور بس ڈرائیور گرفتار کر لیا گیا۔
پاکستان کے لحاظ سی چودہ افراد کی ہلاکت ایک عام سی بات ہے مگر ترقی یافتہ ممالک کے لحاظ سے یہ خاصی بڑی تعداد ہے، ہمارے ملک کا عدالتی نظام ایسا فرسودہ ہے کہ کسی ستم رسیدہ کو انصاف دے پاتا ہے نہ ظالم کو سزا۔ اگر ظالموں کو سزا کا خوف ہوتا تو ایسے واقعات کبھی وقوع پذیر نہ ہوتے، جنازے کے مناظر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ عورتیں مرد اپنا سر منہ پیٹ رہے تھے۔ اس سے بڑھ کر اور قیامت کیا ہو گی ؟۔
افسوس ان مظلوموں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔
ریاست ماں کے جیسے ہوتی ہے مگر ہماری سوتیلی ماں ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کوئی ایسی کوشش کی جائے گی کہ جس سے اس رسک کو کم کیا جائے جو ایک آدمی کے سڑک پر آنے کے بعد اسے درپیش ہوتا ہے
میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے
کیا آپ کے پاس ہے اس کا کوئی جواب ؟؟؟؟