مٹی کا مادھو

امتیاز عاصی
دنیا کی تاریخ گواہ ہے جن سیاست دانوں نے جمہوریت اور عوام کے حقوق کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں شہرت دوام پائی۔ الجزائر کے احمد بن بیلا برسوں جیلوں میں رہے دوران قید ان کا انتقال ہو گیا۔ افریقہ کے نیلسن منڈیلا، مصر کے جمال عبدل ناصر اور مہاتما گاندھی برسوں جیلوں میں رہے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھ گئے ۔ایران کے روحانی لیڈر حضرت آیت اللہ خمینی بائیس برس تک جلاوطن رہے ایسا انقلاب برپا کیا حالیہ وقتوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جو تختہ دار پر چڑھ گئے معافی کی درخواست نہیں کی حالانکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے ان کے وکیل یحییٰ بختیار سے سزائے موت عمر قید میں بدلنے کی درخواست دینے کو کہا بھٹو نے انکار کر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو ملک چھوڑنے کی آٗفر دی بھٹو نے ملک نہیں چھوڑا۔ مہاتھا گاندھی جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا کچھ عرصہ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا سے مل کر افریقہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی۔ ایک وقت آیا جب نیلسن منڈیلا نے مہاتما گاندھی سے ہندوستان جا کر انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کو کہا ۔مہاتما گاندھی نے پہلے اقدام کے طور پر برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کرایا۔ یہ تھے جو عوام کے آئیڈیل لیڈر جنہوں نے عوام کے حقوق اور فرنگیوں سے آزادی کے لئے طویل جدوجہد کی اور بالاآخر عوام کو آزادی دلا کر دم لیا۔ اب ہم آتے ہی وطن عزیز کے ان سیاسی رہنمائوں کی طرف جو مشکل وقت میں ملک چھوڑ گئے اور عیش و عشرت ان کا مطمع نظر رہا۔ بانی پی ٹی آئی بارے طاقت ور حلقوں کا خیال تھا وہ قید و بند کے دوران موم کی طرح پگھل جائے گا ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے ۔ اس کی جماعت کے بہت سے رہنما اور ورکر جیلوں میں ہیں۔ دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے مقدمات کی سماعت نہیں ہو سکی ہے۔ باوجود سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی عدالتوں کو ان کے مقدمات کا چار ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا ہے تاہم اس عرصے میں مقدمات کی فیصلوں کی کم امید ہے۔ طاقتور حلقوں کو ادراک نہیں تھا عمران خان ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ پی ٹی آئی کی خواتین پر نظر ڈالیں تو محترمہ یاسمین راشد، زرتاج گل اور عالیہ حمزہ جیسی خواتین چٹان کی طرح خان اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ عمران خان کی بہن علمیہ باجی نے تو حد کردی بھائی کی آزادی کیلئے شب وروز جدوجہد کر رہی ہیں اپنی مثال آپ ہے۔ وہ جو خان سے وفا داری کا دم بھرتے تھے مشکل وقت میں اسے چھوڑ گئے اور مخالف کیمپ میں جا گھسے ہیں بعض وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں۔ عمران خان مضبوط اعصاب کا مالک ہے چاہتا تو مشکل وقت میں ملک سے باہر جا سکتا تھا اس نے عوام کو چھوڑ کر بیرون ملک سے جانے کا ارادہ نہیں کیا۔ میاں نواز شریف جو کسی وقت ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کے قائد ہونے کے دعویدار تھے۔ مشکل گھڑی میں طاقتور حلقوں سے ڈیل کرکے پہلے سعودی عرب میں جدہ کے سرور پیلس میں عیش و عشرت سے وقت گزارا۔ دوسری مرتبہ انہی حلقوں کی آشیرباد سے لندن کو مسکن بنا لیا۔ گزشتہ انتخابات کی بعد نواز شریف نے چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کا اعلان کیا جو ابھی تک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب بلوچ رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ سے ملاقات میں نواز شریف نے بلوچستان کا دورہ کرنے کا پھر عندیہ دیا ہے اس سے قبل وہ اپنے صوبے کا دورہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ گو نوازشریف نی وزارت عظمیٰ کے دور میں موٹر ویز جیسے منصوبے مکمل کئے تاہم ان منصوبوں میں مبینہ طور پر گھپلوں کی باتیں زد و عام رہیں۔ کورئین جاتے جاتے جنرل مشرف کو کک بیک کی کہانیاں سنا کر چلتے بنے۔ شریف خاندان کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات کا منفی پہلو یہ ہے نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے خلاف مقدمات کی سماعت نہیں ہونے دی قوانین میں ترامیم کا سہارا لیتے ہوئے مقدمات ختم کرا لئے۔ ایسی صورت حال سے پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے بھی فائدہ اٹھایا اور عوامی مقبولیت سے محروم ہو گئے۔2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو اکثریت حاصل نہیں تھی تاہم وہ طاقتور حلقوں کی آشیرباد سے وزارت عظمیٰ پر فائز ہو گیا لیکن بہت جلد ان حلقوں کو اس بات کا ادراک ہو گیا وہ کمپرومائز کرنے والا نہیں خود سر ہے۔ عمران خان کو اس بات کا ادراک نہیں تھا جن حلقوں نے اسے اقتدار دلایا ہے وہ اسے پس زندان رکھ سکتے ہیں۔ گو سانحہ ڈی چوک نے پی ٹی آئی کے ورکرز کے حوصلے پست کئے تاہم خان کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پی ٹی آئی اس وقت اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہے اس کے رہنما آپس میں دست وگریباں ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو اپنے اپنے عہدوں کی فکر لاحق ہے البتہ عمران خان نے عوام میں آزادی کی جو فصل بوئی ہے وہ پک کر رہے گی۔ جمہوریت کی آزادی کے لئے جو قومیں جہد مسلسل پر کاربند ہوتی ہیں انہی قوموں کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔ تاریخ میں وہی سیاسی رہنما زندہ رہتے ہیں جو اپنی اقوام کے لئے جہد مسلسل پر یقین کے ساتھ قید و بند کی پروا نہیں کرتے۔ بظاہر دیکھا جائے تو بے نظیر بھٹو اور عمران خان کو بین الاقوامی سطح پر expoureنواز شریف کو حاصل نہیں۔ تین مرتبہ وزیراعظم رہتے ہوئے نواز شریف نے بین الاقوامی جو شہرت حاصل ہے نواز شریف اس سے محروم ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور عمران خان آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ نواز شریف ایک ایسے وزیراعظم تھے جو آرام و راحت اور اچھے کھانے پینے کے شوقین اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ عمران خان نے کرکٹ کی دنیا میں نام پیدا کیا اور سیاست میں آنے کے بعد عوام میں جو مقبولیت حاصل کی ذوالفقار علی بھٹو کو پیچھے چھوڑ گیا۔ نواز شریف قید و بند میں گھبراہٹ کا شکار ہونے والے لیڈر ہیں اس کے برعکس عمران خان جیلوں سے گھبرانے والا نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی جیلیں کاٹیں اور ملک سے باہر رہیں ۔ بھٹو دور وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی مرحوم نے ایسے ہی نواز شریف کو مٹی کے مادھو سے تشہبیہ نہیں دی تھی۔