ColumnTajamul Hussain Hashmi

مولانا فضل الرحمٰن کا رول ماڈل کون؟

تجمل حسین ہاشمی
مولانا فضل الرحمٰن اپنے سیاسی رول ماڈل کے طور پر سب سے پہلے اور سب سے نمایاں طور پر اپنے والد، مولانا مفتی محمود کو مانتے ہیں۔ انہوں نے کئی بار اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے والد کو ہی اپنا سیاسی رہنما اور مثالی شخصیت سمجھتے ہیں۔
جناب مفتی محمود نہ صرف ایک ممتاز دینی اسکالر تھے بلکہ 1970ء کی دہائی میں خیبر پختونخوا ( تب کا NWFP) کے وزیرِ اعلیٰ بھی رہے۔ وہ سادہ مزاج، اصول پسند اور بااصول سیاستدان کے طور پر پہچانے جاتے تھے، جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں آئین سازی کے دوران اہم کردار ادا کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن 21اگست 1953ء بروز جمعہ، عیدالاضحی کے دن ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے عبدالخیل میں پیدا ہوئے۔ دیگر ذرائع ان کی تاریخ پیدائش 19جون بھی لکھتے ہیں۔ ان کی پیدائش کے تین سال بعد، 1956ء میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا کا تعلق پختون قبیلے مروت کی شاخ ’’ یحییٰ خیل‘‘ سے ہے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے چچا سے حاصل کی۔ بچپن میں انہیں والی بال کھیلنے کا شوق تھا۔1970ء میں انہوں نے پنجاب ایجوکیشن بورڈ کے تحت میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1979ء میں وفاق المدارس کے تحت ’’ دورہ حدیث‘‘ کا امتحان دے کر سندِ فراغت حاصل کی اور جامعہ قاسم العلوم ملتان میں تدریس کا آغاز کیا۔14 اکتوبر 1980ء کو والدِ محترم مفتی محمود کے انتقال کے بعد انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ اس وقت ان کی عمر27برس تھی، اور اسی عمر میں وہ جمعیت علمائے اسلام کے امیر منتخب ہوئے۔ ان کی دستار بندی پر جماعت میں اختلافات پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں جے یو آئی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔’’ ف‘‘ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اور ’’ س‘‘ مولانا سمیع الحق کے ساتھ۔ مولانا سمیع الحق مرحوم اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ اللہ پاک انہیں جنت میں جگہ دے، آمین۔
مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کی سیاست کا ایک زیرک کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ان کی حقیقت پسندی کو تسلیم کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کی مرکزی قیادت کا طرزِ عمل جمہوری ہے۔مولانا فضل الرحمٰن نے ہمیشہ سیاسی جدوجہد، جمہوریت اور پارلیمانی عمل پر یقین رکھا، جب کہ بعض دیگر دیوبندی علما کی سوچ اور طرز سیاست ان سے مختلف رہی۔یہ فرق واضح کرتا ہے کہ ان کے سیاسی رول ماڈل وہ لوگ ہیں جو آئینی، جمہوری اور پارلیمانی راستوں کے ذریعے تبدیلی کے قائل ہیں۔
جو لوگ جماعت اسلامی یا جے یو آئی سے الگ ہوئے ، وہ پُرامن یا دیگر طریقہ سے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر جے یو آئی یا اس جیسی مذہبی ، پارلیمانی جماعتیں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کریں تو اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اور ان کی جگہ سخت موقف رکھنے والے گروہ یا جماعتیں لے سکتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن ایک نفیس اور جمہوری رہنما ہیں۔ ان کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ ملکی نظام کو جمہوری طریقے سے بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کئی مواقع پر حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)کے بانی ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف انہوں نے ایک وسیع تحریک چلائی، جس سے عمران خان کی حکومت خائف رہی، اور اب موجودہ حکومت بھی ان کی تحریک سے خائف نظر آتی ہے۔
پی ڈی ایم کے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی بصیرت اور عمل سے بخوبی واقف ہیں۔ 10اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں وہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔ اگر نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی کی تجویز مان لی جاتی تو ان کی وزارتِ عظمیٰ یقینی ہو سکتی تھی۔
سینئر تجزیہ نگار و صحافی حامد میر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 2002ء میں پیپلز پارٹی نے مولانا کو ووٹ نہیں دیا، جس کے باعث وہ وزیر اعظم نہ بن سکے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نوابزادہ نصراللہ پہلی بار پی ڈی ایم کے سربراہ بنے تھے، اور اب مولانا فضل الرحمٰن بھی پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں۔ سینئر تجزیہ نگار ایثار رانا کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ کے قریب نہیں سمجھے جاتے۔ ان کے سخت گیر بیانات کی وجہ سے فیصلہ ساز حلقے ان سے مطمئن نظر نہیں آتے۔2025ء میں مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے اتحادی ہونے کی ساتھ ساتھ اپوزیشن کے طور پر بھی متحرک ہیں۔ الیکشن کے حوالہ سے ان کے خدشات واضح ہیں ۔ وہ عمران حکومت کے خلاف تھے اور آج اپنے اتحادیوں کی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ہر صورت میں ان کے ساتھ مل کر تحریک کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔
دھاندلی زدہ انتخابات حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان ہیں اور اس کے زوال کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہی بنیادی مسئلہ ملکی ترقی میں رکاوٹ اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔ تیز ٹیکنالوجی کی کروٹ نے پوری دنیا کے نظام کو تبدیل کر دیا ہے، ہمارے ہاں نئی نسل جو بے روزگار بیٹھی تھی اس تبدیلی کا تیزی سے شکار ہو رہی ہے، حکومت نے پیکا ایکٹ تو نفاذ کر دیا لیکن ناقص کارکردگی پر سوال کا حق بھی تو آئین پاکستان دیتا ہے۔ اگر اپوزیشن اپنا کردار ادا کرے تو یقینا عوامی رد عمل میں کمی آئے گی۔

جواب دیں

Back to top button