چاغی سے اچھی خبر، اور کچھ سوال

مظفر اعجاز
پاکستان کے چار موسم، معدنی اور انسانی وسائل، صحرا، جنگل، سبزہ زار، پانچ دریا، سمندر، دنیا کا سب سے گہرا ساحل گوادر، ایٹمی قوت، مضبوط فوج، ساٹھ فیصد کے قریب نوجوان آبادی اور بہت کچھ ایسے میں یہ خبر آجائے کہ چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ، تو سونے پہ سہاگا ہی کہنا چاہئے، نیشنل ریسورسز لمیٹڈ ( این آر ایل) کے چیئرمین محمد علی ٹبہ نے اعلان کیا ہے کہ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر دریافت کر لیے۔ محمد علی ٹبہ نے پاکستانی منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025کے شرکا کے سامنے یہ انکشاف کیا ہے۔ یہ بھی اچھی خبر ہے کہ این آر ایل ایک سو فیصد پاکستانی اور نجی کمپنی ہے ۔ جو فاطمہ فرٹیلائزر، لبرٹی ملز اور لکی سیمنٹ کا ذیلی ادارہ ہے جسے اکتوبر 2023میں لیز دی گئی تھی ۔ لائسنس کردہ علاقہ اپنی آتشِ فشاں چٹانوں کی خصوصیات کی وجہ سے معروف ہے جہاں قیمتی معدنیات کی دریافت کے روشن اور قیمتی امکانات ہیں گزشتہ 15ماہ کے عرصہ میں این آر ایل نے معدنی ذخائر کے 18امکانات کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں سے ایک ممکنہ سائٹ ’’ ٹینگ کور‘‘ پر تیزی سے ایڈوانس مرحلے تک پہنچ گئی ہے۔ محمد علی ٹبہ نے منصوبے کی دیگر خصوصیات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ این آر ایل نے ہیروں کی دریافت کے سلسلے میں 13کھدائیاں 3517میٹرز تک مکمل کرلی ہیں 1500میٹرز تک 6 ڈرلنگ ہولز سطح سے قریب زونز میں معدنیات کی موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے انٹریسٹ رینجز میں 0.23سے 0.48فیصد تانبہ ، 0.09جی /ٹی سے 0.14جی /ٹی سونا اور 1.30جی /ٹی سے 6.21جی /ٹی چاندی ملی ہے
اتنی زبردست دریافت کے ساتھ ہی بلوچستان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، اب ہر ایک بلوچستان کے تحفظ اور ان کے لئے دعاگو ہوگا۔ اعلان تو کیا گیا ہے کہ مقامی آبادی کو اولین ترجیح حاصل ہے، یہی اعلان سوئی گیس کے ذخائر دریافت ہونے پر بھی ہوا تھا، لیکن ساٹھ سال میں مقامی آبادی کو اتنی سہولت بھی نہیں ملی کہ ہر بچے بڑے کے پائوں میں جوتیاں ہوں۔ صاف پانی، سکول، صنعت، کالج یونیورسٹی، روزگار اور صحت وغیرہ کی سہولتیں تو یہاں کے لوگ خواب میں بھی نہیں دیکھتے، البتہ دنیا ہے بلکہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ سوئی گیس کی رائلٹی کے کروڑوں روپے سالانہ ادا کئے جاتے ہیں، لیکن وہ مقامی عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچے۔
بہر حال یہ بہت بڑا اعلان ہے، ابھی تو گوادرڈیپ سی پورٹ کے ثمرات ملنا شروع نہیں ہوئے ہیں خدا کرے ایمانداری اور جذبہ حب الوطنی کے تحت اس منصوبے کے ثمرات قوم اور ملک کو ملنے لگیں، نااہلی تو سونے کو بھی کچرا بنا دیتی ہے اور خلوص اور اہلیت کچرے کو بھی سونا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب جس ذخیرے کا محمد علی ٹبہ نے ذکر کیا ہے اس کی مالیت بھی کھربوں ڈالر ہے، اور اس کی دریافت کا اعلان کرنے والی کمپنی بھی سو فیصد پاکستانی ہے، اس اعلان کے ساتھ ہی وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ہمارے پاس سونے اور تانبے سمیت کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں، انہوں نے عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ان کھربوں ڈالر کے وسائل کی مدد سے آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیں گے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جو پاکستان کا ہر حکمران عوام کو دکھاتا ہے، لیکن سارے وسائل کے باوجود پاکستان ہر سال آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنستا ہی جارہاہے، کیا ریکوڈک ،کے ذخائر ملک کو آئی ایم ایف کی غلامی سے نکالنے کے لئے کافی نہیں تھے ، کیا پہلے سے معلوم معدنیات کی مدد سے یہ کام نہیں ہوسکتا تھا اور چند برس قبل شروع کئے گئے ’’ گیم چینجر سی پیک‘‘ میں تو یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے لیکن ہمیں ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے ملکی راز کھول کر رکھنے پڑتے ہیں، یہاں تک کہ ایف بی آر، ٹیکس وصولی، سبسڈی، قیمتوں میں کمی بیشی ہر چیز کا نظام اس کو پیش کرنا پڑتا ہے اور وہ تو عدلیہ تک بھی پہنچ گئے تھے، تو پھراس بات کی ضمانت کون دے گا کہ کھربوں ڈالر کے یہ ذخائر پاکستان کی ترقی کے ضامن ہوسکتے ہیں، جب اپنی سٹیل ملز کی موجودگی میں گوادر اور سی پیک کے لئے سٹیل درآمد کرنا پڑے تو ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کی کیا ضمانت ہے۔
یہاں یہ سوال بہرحال اہم ہے کہ جن معدنیات کی موجودگی کا اعلان کیا گیا ہے کیا پاکستان ان کو بحفاظت نکال کر مارکیٹ تک لانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،یہ بھی بالکل ایساہے کہ پاکستان اپنے ملک میں پیدا ہونے والے ایندھن کو صاف کرنے کے لئیے بیرون ملک بھیجے اور اسے مہنگا خریدے ،اپنےملک کی گیس نکالنے کے لئے بین الاقوامی کمپنیوں کو ٹھیکا دیا جائے پھر ان سے بین الاقوامی نرخ پر اپنی ہی گیس مہنگی خریدی جائے، اس لئے ضروری ہے کہ ان معدنی ذخائر کو پاکستان کے مفاد میں پاکستانی کمپنیوں ہی کو نکالنے اور ان کی پیداوار بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچانے کی ذمہ داری دی جائے۔ اور ہر کام شفاف ہونا چاہئے ،کس سے کیا معاہدہ ہے یہ عوام کو معلوم ہونا چاہئیے ۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، پہلا تو یہ کی کیا پاکستانی کمپنیز یہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ؟ اور دوسرا یہ کہ ان ٹھیکوں میں ایمانداری کی ضمانت کون دے گا ، کیونکہ اس معاملے میں حکمران طبقے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ،کرپشن ،نااہلی اور اقربا پروری سارے جرائم ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں ، اس کا متبادل یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کسی مغربی کمپنی کو ٹھیکا دیدیا جائے ، لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ،ایسے ٹھیکوں میں کمیشن اور کرپشن دونوں ہوتے ہیں ،فرانس سے آبدوزوں کی خریداری ہو یا کوئی اور معاملہ، کک بیک تو عام ہے ،بہت سے معاملات تو برسوں بعد کھلتے ہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہونا چاہئے، ایسا کون سا کام کیا جائے کہ پاکستان اس سنہری موقع سے واقعی فائدہ اٹھا لے اور آئی ایم ایف اور امریکا سے قرضوں کی بھیک کے چکر سے نکل جائے، لاکھوں پاکستانیوں کی طرح ہم بھی کچھ خوش کن الفاظ کے حقیقت بننے کے منتظر ہیں ، جو یہ ہیں ، خود انحصاری ، خود مختاری، عالمی برادری میں باوقار رہنا، معاشی استحکام، ایشین ٹائیگر، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا، وغیرہ لیکن ہمارے حکمراں طبقے کی کیفیت یہ ہے کہ
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربہ گریباں اسے کیا کہیے
کے مصداق کچھ کہا، لکھا، بولا، شراکت کی یعنی شیئر کیا تو ’’ پیکا‘‘ تیار بیٹھا ہے۔
یادش بخیر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی آئے دن، گیس اور پٹرول کے ذخائر دریافت ہورہے تھے اور واہ واہ سبحان اللہ بھی خوب ہوئی تھی، لیکن ملک خود کفیل ہوا نہ ترقی یافتہ، کچھ عرصہ قبل ساحلوں کے قریب گیس کے ذخائر کی خبریں سنی تھیں ، اگر اعلانات اور خوش خبریاں جمع کرنے لگیں تو امریکا ،جاپان، چین ،جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بہت پیچھے نظر آئیں گے ، کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں اس اعلان پر شبہ ہے یا ہم مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں، بس ماضی کے تجربات کو یاد کرکے کچھ خوف سا آتا ہے ،اس لئے اعلان کرنے والوں کی خیریت کی دعا کے ساتھ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ یہ جو اعلان ہوا ہی بالکل سچا ہو، اللہ کرے اس پر ایمانداری سے عمل ہو، کوئی کرپشن کوئی بھتا کوئی سسٹم درمیان میں نہ آئے، اور ملک آئی ایم ایف سے جان چھڑا لے، امریکا ،فرانس جرمنی ، چین ،بھارت اور سعودی عرب کو قرضے دے ، آمین ۔
آخر جس ملک کے پاس کھربوں ڈالر کی معدنیات ہوں یہ سب کرنا تو اس کا حق بنتا ہے ۔