سماجی جرائم کا بڑھتا ہوا سیلاب
قادر خان یوسف زئی
2024ء کی سرکاری رپورٹ میں پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والے سماجی جرائم کے اعداد و شمار نے ہمیں ایک تشویشناک حقیقت سے روشناس کرایا ہے۔ یہ حقیقت نہ صرف ہمارے معاشرتی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتی ہے، بلکہ ہمارے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماں کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ رپورٹ میں دی گئی تفصیلات اور اعداد و شمار کے مطابق، قتل، جنسی جرائم، اغوا، اور بلوے جیسے سنگین جرائم کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ ان جرائم کا بڑھنا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہماری اقدار اور معاشرتی ڈھانچہ ٹوٹ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2024ء کے دوران گیارہ ہزار 78 افراد کا قتل کیا گیا۔ ان میں سب سے زیادہ پنجاب میں قتل ہوئے جن کی تعداد 4908ہے، اس کے بعد خیبرپختونخوا 3444، سندھ 1826، بلوچستان 528، اسلام آباد 155، گلگت بلتستان 122اور آزاد کشمیر 75ہیں۔
قتل کے واقعات میں اس قدر اضافہ اس امر کا غماز ہے کہ ہماری سوسائٹی میں انسان کی جان کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ کسی بھی وجہ سے ایک شخص کی زندگی کا خاتمہ کر دینا اب معمول بن چکا ہے۔ ہم اپنے معاشرتی تعلقات میں بھی شدت اور تیزی سے فاصلے بڑھا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں تشدد کا یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف اگر ہمارے سیاسی، سماجی، اور مذہبی رہنما ان جرائم کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کر پا رہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر بھی اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ انسانیت کا احترام کرنا کس قدر ضروری ہے۔ قتل کے بعد جنسی جرائم کا سلسلہ پاکستان میں سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اجتماعی زیادتی کے واقعات خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے مقابلے میں زیادہ ہوئے۔ بلوچستان میں ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں یہ جرائم نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ یہ ممکن ہے کہ ان جرائم کی رپورٹنگ کا نظام کمزور ہو یا وہاں پولیس اور عدالتوں کی کارکردگی مناسب نہ ہو۔ جنسی جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آیا ہمارے معاشرتی ضمیر میں کوئی کمزوری تو نہیں آ گئی؟
پنجاب میں جنسی جرائم کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی ہے، مگر یہ کمی ہمارے معاشرتی رویوں کی اصل حقیقت نہیں بیان کرتی۔ دراصل جنسی جرائم کا بڑھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشرتی اقدار، اخلاقیات اور دین کے اصولوں سے انحراف ہو رہا ہے۔ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو دراصل یہ نہیں سکھایا کہ انسانی عزت اور وقار کیا چیز ہے، اور ان اصولوں کی پابندی کیسے کی جاتی ہے۔ اگر ہم نے اس طرف فوری توجہ نہ دی تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ 2024ء کے دوران پورے ملک میں اغوا اور زبردستی لے جانے کے 34688واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں پیش آئے ہیں، جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی بھی سب سے زیادہ ہے۔ ان اغوا کی وارداتوں کے پیچھے کئی عوامل ہیں، جن میں معاشی مشکلات، سماجی ناانصافیاں، اور قانون کی عملداری کی کمی شامل ہیں۔ اکثر یہ اغوا کے واقعات جبری مشقت، چائلڈ لیبر، یا پھر خاندانوں کی لڑائیوں کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔
معاشرتی سطح پر جب تک افراد ایک دوسرے کے حقوق کا احترام نہیں کریں گے، اور جب تک حکومتی سطح پر موثر قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے، تب تک اس طرح کے جرائم بڑھتے رہیں گے۔ یہ صرف حکومت کا کام نہیں کہ وہ ان جرائم کو روکنے کے لیے اقدامات کرے، بلکہ ہمیں اپنے کردار کی اصلاح کرنی ہوگی اور معاشرتی ذمہ داری کا شعور پیدا کرنا ہوگا۔سندھ میں ہنگامہ آرائیاں وفساد کی سب سے زیادہ وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جن کی تعداد 3472ہے۔ خیبرپختونخوا میں ایسے 2920واقعات ہوئے۔ بلوے اور دنگے فساد کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہمارے معاشرتی نظام میں ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔ جب افراد کے درمیان تنازعات بڑھتے ہیں، اور معاشرتی عدلیہ اور ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے، تو اس کا نتیجہ فساد اور تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے معاشرتی نظام میں برداشت اور سمجھوتے کی کمی ہو گئی ہے۔ سیاستدان، مذہبی رہنما، اور دیگر اہم شخصیات نے اپنے بیانات میں شدت پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان نفرت کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح چلتی رہی تو ملک میں امن قائم کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے سماجی جرائم کے پیچھے ایک اہم سبب معاشی مشکلات بھی ہیں۔ غربت، بیروزگاری، اور معاشی بدحالی نے لوگوں کو قانونی طریقوں سے ہٹ کر جرائم کی طرف مائل کیا ہے۔ جب افراد اپنے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے قانون کی طرف نہیں دیکھتے، تو وہ جرائم کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر حکومت معاشی اصلاحات پر توجہ دے، خصوصاً نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے، تو اس سے نہ صرف جرائم کی شرح میں کمی آئے گی، بلکہ معاشرتی استحکام بھی ممکن ہوگا۔ معاشرتی جرائم کا بڑھنا اس امر کا غماز ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم اور آگاہی کی کمی ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو بچپن سے ہی انسانیت، احترام، اور اخلاقیات کے بارے میں تربیت دیں تو یہ جرائم کی روک تھام کا سب سے موثر طریقہ ہوگا۔ سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں اخلاقی تعلیم پر زور دینا اور والدین کو اپنے بچوں کی تربیت میں فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دینا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، دین کی اہمیت اور اس کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے معاشرتی اصلاحات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے حوالے سے حکومت کو قانونی اصلاحات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ایک طرف جہاں پولیس اور عدلیہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، وہیں جدید ٹیکنالوجی جیسے فورینزک سائنسز، جرائم کا ڈیٹا بیس، اور سی سی ٹی وی کیمرے جیسے ذرائع کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی تکنیکی پیشرفت سے جرائم کی تحقیقات میں مدد ملے گی اور مجرموں کو پکڑنا آسان ہوگا۔
سماجی جرائم کے پیچھے ایک اور اہم وجہ معاشرتی ذہنیت اور ثقافتی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بعض اوقات تشدد کو جواز فراہم کیا جاتا ہے یا اسے معمولی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کہ ’’ طاقت میں رہنا‘‘ یا ’’ اپنے حقوق کے لیے لڑنا‘‘ درست ہے، ایک خطرناک رجحان ہے جو جرائم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں اس ثقافتی نظریے کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کا شعور پیدا کرنا ہوگا کہ معاشرتی امن کے بغیر کوئی بھی فرد خوشحال نہیں رہ سکتا۔