اقتصادیات کا ڈراپ سین

تحریر : سیدہ عنبرین
پون صدی بیت گئی، اہل وطن کو ایک کہانی پہلی مرتبہ سنائی گئی تھی کہ پاکستان معدنی ذخائر سے مالامال ہے، بہت جلد تمام دلدر دور ہو جائیں گے، بس ذرا سا انتظار کر لیں، قوم انتظار کرتی رہی، عجب درد ناک کہانی ہے جو ہر دو چار برس بعد سنائی جاتی ہے لیکن عنوان بھی بدلنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی، جو یہ صلاحیت نہیں رکھتے وہ قوم کی تقدیر خاک بدلیں گے۔ کہانی ہر مرتبہ ایک درد ناک موڑ پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے اور اس مرتبہ بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ہم ان معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھا کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے چنگل سے نکل جائیں گے لیکن ہر مرتبہ معلوم ہوتا ہے ان اداروں کا شکنجہ مزید سخت ہوگیا ہے جبکہ قرضے ماضی کی نسبت دوگنا یا چار گنا ہوچکے ہیں۔ گزشتہ 7ماہ میں لئے گئے قرض 57کروڑ ڈالر روزانہ کے حساب سے لئے گئے، کہاں خرچ ہوئے کسی کے پاس دکھانے کیلئے کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں کہ کہہ دیں یہاں خرچ ہوئے، ان اربوں ڈالروں میں سے اگر آج سے 3برس قبل معدنی ذخائر کی تلاش میں کچھ رقم لگا دی جاتی تو آج حسب روایت کشکول پکڑ کے آوازیں نہ لگاتے۔ ’’دے جا سخیا راہِ خدا، جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا، آخر کبھی نہ کبھی تو ہمارے جھانسے میں آئے گا۔‘‘ ہم نے اپنے خرچ پر غیرملکی ماہرین بلوائے، انہوں نے تیل کی تلاش کے شعبے میں کام کیا، ساتھ پاکستانی افرادی قوت لگائی، انہوں نے کام سیکھا۔ معدنیات کی تلاش کے معاملے میں بھی ایسا ہوسکتا تھا لیکن ہم سودا کرنے پر یقین کرتے ہیں، غیر ملکی کمپنیوں پر مکمل انحصار کرتے ہیں جو جھوٹا تخمینہ دیتی ہیں، بتاتی کم ہیں، دکھاتی کم ہیں اور لوٹ کر زیادہ لے جاتی ہیں، ہم آنکھیں بند کئے بیٹھے رہتے ہیں کہ ہم ساورن گارنٹیز دے چکے ہیں۔ پاکستان میں تیل دریافت ہوا، اس تیل سے درجن بھر پراڈکٹ نکلتی ہیں، جن میں تارکول، پٹرول، مٹی کا تیل، گریس، ریذلین اور بہت کچھ شامل ہیں، کیا ہم پٹرول کی ملکی ضرورت پورا کر سکے؟ جواب ہے نہیں، یہی معاملہ گیس کا ہے، بات یہ نہیں کہ یہ معدنیات کم ہے، معاملہ یہ ہے کہ ہم 70برس سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں، ہماری ترجیحات ملک کو خود کفیل بنانا یا اس کے قرضے اتارنا نہیں ہے، ہماری ترجیحات اورنج ٹرین جیسے منصوبے ہیں جو اربوں روپے کے قرض سے بنتے ہیں، ہم سال ہا سال اس کا سود ادا کرتے ہیں، اس پر ہر ماہ اربوں روپے کی سبسڈی دیتے ہیں، یہ منصوبہ کمبل کی طرح ہماری معیشت کو چمٹا ہوا ہے، ہم اسے چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ معاہدہ کرنے والی سرکار نے ہمارے ہاتھ ہی نہیں پائوں بھی کس کر باندھ دیئے ہیں۔ لاہور میں نئے اللے تللوں کے تحت 6سو ارب روپے سے انڈر گرائونڈ ٹرین کے منصوبے کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کیا ہم انڈر گرائونڈ ٹرین کے بغیر زندہ نہیں رہ سکیں گے، یہی روپیہ معدنیات تلاش کرنے، انہیں نکالنے اور فائنل فنش کرنے میں لگا دیں، اپنی معدنیات کو اونے پونے نہ بیچیں نہ ہی انہیں سیاسی رشوت کے طور پر کسی بڑی طاقت کے حوالے کریں، جو کرنا ہے خود کریں تاکہ اس کے ثمرات پاکستان اور اہل پاکستان کو مل سکیں۔ پاکستان میں 82قسم کی معدنیات موجود ہیں، جن میں صوبہ خیبر اور ملحقہ علاقوں میں زمرد، یاقوت، نیلم، سونا اور تانبا موجود ہے۔ سوات، مردان، گلگت میں کچھ اور ذخائر بھی موجود ہیں جن میں ماربل بھی اہم ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں کوئلہ، تیل و گیس کے علاوہ سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ لوہا اور گندھک اس کے علاوہ ہیں، تھر کے علاقے میں جو کوئلہ موجود ہے وہ آئندہ کئی سو برس تک نکالا جائے جب بھی ختم نہ ہوگا۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت گیا جب ہمیں پڑھایا گیا اور ازبر کرانے کیلئے متعدد تشہیری مہمیں چلائی گئیں کہ ریکوڈک سے پیداوار کسی بھی وقت 250ملین ٹن سالانہ ہوسکتی ہے، وہ وقت جانے کہاں جاکر پھنس گیا ہے آج تک ہمارے سامنے نہیں، آئندہ بھی نہیں آئے گا۔ جنہوں نے چین سے متروک کول پاور پلانٹ خریدے اور انہیں چلانے کیلئی ہر سال اربوں ڈالر سالانہ کا کوئلہ منگواتے رہے وہ قوم کو بتائیں انہوں نے یہ کئی ہزار ارب ڈالر معدنی ذخائر کو ڈویلپ کرنے پر خرچ کیوں نہ کئے، اس سے ملتی جلتی کہانی سندھیک کی ہے جس کا انجام ٹریجڈی ہے۔ معدنی ذخائر کی دریافت اور پراسسنگ پر آج کام شروع ہو جائے تو کم از کم آئندہ چار پانچ برس میں ان کی کوئی شکل نکلے گی۔ آج جس ملک کی جن کمپنیوں کو ٹھیکے دیئے جانے کی
منصوبہ بندی نظر آتی ہے وہ ایڈوانس کے طور پر چونی بھی ہاتھ پر نہ رکھیں گی لہٰذا معدنی ذخائر کی پرانی کہانی کے ذریعے قوم کو نیا سبز باغ دکھانے کی بجائے عملی اقدامات کریں۔ آئی پی پیز ہمارا خون نچوڑ رہے ہیں، جو ہر سال کئی ہزار ارب روپے بنا بجلی پیدا کئے اور بنا فروخت کئے ہماری جیبوں سے لوٹ رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ہماری منرلز کی کمائی بھی انہی خاندانوں کی تجوریوں میں جائے گی کیونکہ ابھی سوراخ بند نہیں ہوئے۔ صرف 16کمپنیوں سے بات مکمل ہوئی ہے، چند روپے فی یونٹ کا ریلیف عوام تک پہنچا ہے، قریباً سو کے قریب یہ آکٹوپس کی طرح ہمارے جسم سے لہو چاٹ رہے ہیں، انہیں چھ ماہ میں بند کرنا چاہئے تھا، تین برس بیت گئے ہیں، شاید دس برس مزید اسی طرح گزارنے کا پروگرام ہے، قوم اس سلسلے میں صرف احتجاج کر سکتی ہے اور کچھ نہیں کیونکہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ اب تو قاضی بھی گونگا بہرہ ہے، کچھ دکھائی دیتا ہے نہ کچھ سنائی دیتا ہے۔ ہم مہنگی ترین ایل این جی خرید رہے تھے، پاکستان کے تمام مامے چپ تھے، ہم آئی پی پیز سے کمر توڑ معاہدے کر رہے تھے، پاکستان کے تمام کھڑپینچ خاموشی سے دیکھ رہے تھے، کوئی معاہدہ قومی اسمبلی میں قوم کے نمائندوں کے سامنے پیش نہ کیا گیا حتیٰ کہ عدالت عالیہ نے مانگا تو اسے بھی انکار کر دیا گیا کہ یہ خفیہ معاہدے ہیں، جو بھی معاہدے ان تجارتی معاہدوں کی طرح خفیہ قرار دے کر قوم اور اعلیٰ عدالتوں سے اوجھل رکھے جاتے ہیں وہاں کرپشن ہی کرپشن ہوتی ہے، ملکی مفاد نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ نیا منرلز بل آ رہا ہے، حالانکہ پرانا بل موجود ہے، اپوزیشن شور مچا رہی ہے کہ یہ بل اسی کمپنی نے اسی ملک نے تیار کیا ہے جس کی جھولی میں سب کچھ ڈالنا ہے مگر کوئی سننے والا نہیں۔ 70برس میں ہمیں ان معدنیات نے کیا فائدہ دیا دیکھ لیجئے، زرمبادلہ کے ذخائر 9ارب ڈالر ہیں جن میں چین نے 14ارب 70کروڑ ڈالر کا قرض موخر کیا، سعودی عرب نے 3ارب ڈالر، متحدہ امارات نے 2ارب کا قرض موخر کیا، ہمارے پاس اپنا کیا ہے؟ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے حاصل کردہ قرضے اس کے علاوہ ہیں جبکہ مقامی بینکوں سے لئے گئے قرضوں کا کوئی حساب نہیں۔ یہ ہے ہماری گزشتہ تین برس کی کارکردگی، آج اپنا بجٹ خود بنانے کے قابل نہیں رہے۔ اقتصادیات کا ڈراپ سین ہوچکا ہے، اعلان خفیہ ہے