بجلی کی قیمتوں میں کمی، اصل کام باقی ہے

تحریر : مظفر اعجاز
گزشتہ دنوں میاں شہباز شریف کی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں کمی کر دی، اور س کارنامے پر ان لوگوں سے زیادہ مبارکباد سمیٹ رہی ہے جنہوں نے اس کمی کے لئے جدوجہد کی۔ حالانکہ نرخوں میں مسلسل اضافے پر حکومت ہی کی گرفت ہونی چاہئے تھی ۔ یہ خبر سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ابھی نہ تو الیکشن سرپر ہیں نہ کسی جانب سے کوئی چیلنج درپیش ہے تو پھر پنشن اور عام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بجائے اپنی تنخواہیں دو سو فیصد بڑھانے والے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر اعلان کیا کہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں کمی کردی ہے ۔ جس طرح حکمران پیچ دار طریقے سے بجٹ پیش کرتے ہیں، ٹیکس کے فارمولے بناتے ہیں اسی طرح بجلی کا ٹیرف بھی بناتے ہیں، اور اسی طرح کی رعایت بھی دیتے ہیں ۔ حکومت نے سردیاں آنے سے قبل بجلی صارفین کو بلوں میں چھوٹ دی تھی بعد میں پتا چلا کہ سردیوں مین بجلی کم استعمال ہوگی تو بل خودبخود کم آئیں گے۔ لیکن حکومت نے اس پر بھی مبارکباد وصول کی اور اسے بھی اپنا کارنامہ قرار دیا ، اس مرتبہ بھی سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی لیکن جماعت اسلامی کا دھرنا اور احتجاج اتنا زوردار تھا کہ اسے بھی تسلیم کرنا پڑا کہ اس اعلان کے پیچھے جماعت اسلامی کا پریشر ہے۔ ٹی وی چینلز پر بھی آواز اٹھ ہی گئی کہ جماعت اسلامی کا شکریہ ادا کیا جائے، اس کے ساتھ ہی ایک حیرت انگیز دعویٰ ایم کیو ایم نے بھی کر دیا کہ یہ ہماری جدوجہد سے ممکن ہوا ہے۔ لیکن ایم کیو ایم نے تو دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مہاجروں کو شناخت دلوا دی، ہاں دلوا تو دی تھی لیکن پھر ہر جگہ سے شناخت کرکر کے نکالے گئے۔ اور یہ شناخت دلوانے والے ملک سے باہر سیٹل ہیں۔
خیر یہ موضوع نہیں ہے اصل موضوع بجلی کے نرخوں میں کمی ہے، ابھی اس کا اعلان ہی ہوا ہے، عملدرآمد اور عوام تک اس کے ثمرات پہنچنے کے بعد کوئی تبصرہ کیا جاسکے گا ، البتہ حافظ نعیم الرحمان نے درست سوال اٹھایا ہے کہ اصل کام کرو ،ایک تو جو اعلان کیا ہے اس کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے۔ دوسرے یہ کہ آئی پی پیز سے معاہدے ختم کئیے جائیں۔ اور یہاں پہنچ کر پی پی پی ،مسلم لیگ پی ٹی آئی سمیت تمام فوجی حکمران گنگ ہوجاتے ہیں، یہ سب ائی پی پیز کے تحفظ میں ایک ہوجاتے ہیں، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ بجلی قیمتوں میں کمی جماعت اسلامی کی تاریخی و عوامی جدوجہد ،14روزہ پنڈی دھرنے اور حکومت کا مسلسل تعاقب کرتے رہنے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے ، حافظ نعیم نے درست کہا کہ یہ کمی کا پہلا مرحلہ ہے ، عوام کو بجلی بلوں میں مزید ریلیف دینے کی ضرورت ہے ، وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے 7.41اور 7.69روپے کمی کا اعلان خوش آئند ہے، انہوں نے جو مطالبات کئے ہیں وہ عوام کی درست ترجمانی ہیں سب سے پہلے یہ کہ بجلی قیمتوں میں فی یونٹ مزید کمی کی جائے، پھر ناجائز ٹیکسز اور ظالمانہ سلیب سسٹم ختم کیا جائے ، 1994ء سے تمام آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے اور کیپیسٹی چارجز کے نام پر اربوں روپے وصول کرکے جن لوگوں نے عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے ان کو بے نقاب کیا جائے ، پٹرول عالمی منڈی میں سستی ترین سطح پر ہے لیکن ملک میں قیمتیں کم نہیں کی جارہی ہیں ، ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں بھی فوری کمی کی جائے اور پٹرولیم لیوی کے ذریعے سے جو اضافی وصولی کی جارہی ہے وہ بند کی جائی ، حافظ نعیم الرحمان نے مہنگی بجلی کے پورے نظام سے پردہ ہٹا دیا کہ 1994ء سے پیپلز پارٹی کے دور میں آئی پی پیز کا گورکھ دھندا شروع ہوا ، نواز لیگ ، پی ٹی آئی، ق لیگ ، پی ڈی ایم حکومت کے دور میں ان آئی پی پیز کو تحفظ فراہم کیا گیا ، جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کے الیکٹرک کی نجکاری کی اور کھمبوں کی قیمت پر کراچی کے ادارے کو فروخت کر دیا، جس کا خمیازہ کراچی کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں ، کے الیکٹرک پورے ملک میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی پیدا کرتی ہے جبکہ کراچی میں
2نیوکلر پاور موجود ہیں اور ان کی بجلی کی پیداوار کراچی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، تو پھر کیوں کے الیکٹرک سے مہنگی بجلی لے کر کراچی کے عوام کو دی جارہی ہے ، اسی طرح پورے ملک میں مہنگے پاور پلانٹس اور آئی پی پیز سے ہم کیوں مہنگی بجلی لے رہے ہیں ، سولر، ونڈ اور اپنے ملک میں موجود کوئلے سے سستی بجلی کیوں پیدا نہیں کرتے، اس پر طرہ آئی پی پیز کو ٹیکس سے بھی استثنی دیا ہوا ہے ، 2019ء تک تو اس استثنا کا ریکارڈ آتا تھا، جس کے مطابق ان چند سو لوگوں کو 1700ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی، پھر پی ٹی آئی کے دور میں یہ ریکارڈ آنا بھی بند ہوگیا ، عوام بجلی کے بلوں میں طرح طرح کے ٹیکس دیں اور آئی پی پیز کو ٹیکسوں سے چھوٹ۔ ملک میں آئی پی پیز کی تعداد 100سے بھی زیادہ ہے لیکن ابھی صرف 25،30سے بات چیت کی گئی ہے ، مزید سے اس لئے بات نہیں کی جاتی کہ ان میں خود حکمرانوں کے لوگ شامل ہیں، اگر تما م آئی پی پیز کو بٹھا کر بات چیت کی جائے اور جو بجلی عوام استعمال ہی نہیں کرتے اس کی ادائیگی بند کی جائے ، یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آئی پی پیز میں ہمت نہیں کہ وہ عالمی عدالت میں مقدمہ لے کر جائیں کیونکہ ان کی اصل حقیقت ان کو خود پتا ہے ۔
حکومت کو ٹیکسوں کا نظام بھی درست کرنا ہوگا، اور دیگر ناانصافیاں بھی ختم کرنا ہونگی ۔ یہ انصاف نہیں کہ عوام تو پٹرول اور بجلی بلوں میں بھی ٹیکس دیں، ان کی تنخواہوں میں سے بھی ٹیکس کٹے، وڈیرے جاگیردار اور حکمران ٹیکس نہ دیں اور اپنی مراعات اور تنخواہوں میں بھی ازخود اضافہ کر لیں ، اس سال بھی تنخواہ دار طبقہ تقریباََ 500ارب روپے ٹیکس جمع کرائے گا جبکہ بڑے بڑے جاگیر دار اور وڈیرے صرف 4یا 5ارب روپے جمع کرائیں گے ، ایف بی آر کا حال دیکھیں اس میں 26ہزار ملازمین ہیں اور اس قومی ادارے میں ایک سال میں 1300ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے ، قومی معیشت کا بیڑا غرق حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن نے ہی کیا ہے اور اس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں، قومی معیشت اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک عوام، تاجروں اور صنعتکاروں کو حقیقی معنوں میں ریلیف نہ ملے ، عوام اور انڈسٹری کی بہتری کے لیے ، پٹرول اور بجلی کی قیمتیں لازمی مزید کم کرنا ہوں گی۔ اگر عوامی دبا جاری رہا تو حکومت کو یہ کمی کرنا پڑے گی۔ اور یہ دبائو صرف جماعت اسلامی ہی ڈال سکتی ہے۔