وزیراعظم کا بیلاروس کا کامیاب دورہ

پاکستان امن پسند ملک ہے اور دُنیا کے امن کے لیے اس کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چند ایک ملکوں کو چھوڑ کر اس کے تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ وطن عزیز اپنے قیام سے ہی تمام ملکوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ میاں شہباز شریف نے وزیراعظم بنتے ہی بیرونی دُنیا سے پاکستان کے تعلقات کو مزید مضبوط اور توانا کیا ہے، اُنہوں نے اس ضمن میں شبانہ روز کوششیں جاری رکھیں۔ اقتدار سنبھالتے وقت حالات خاصے مشکل تھے۔ اُنہوں نے ہنگامی بنیادوں پر دوست ممالک کے دورے کیے اور اُنہیں پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ سعودی عرب، چین، یو اے ای، کویت، قطر اور دیگر ملکوں کی جانب سے پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں کا آغاز ہوگیا ہے، جس کے ثمرات آئندہ برسوں میں واضح طور پر دِکھائی دیں گے۔ دُنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ باہمی تجارت اور دیگر مدات میں تعاون کو بھی فروغ دینے میں شہباز حکومت کا کلیدی کردار رہا ہے۔ کئی ممالک کے کامیاب دورے کیے اور کئی ملکوں کے سربراہان نے پاکستان کے دورے کیے۔ اس دوران اہم معاہدات طے پائے، جن سے پاکستان اور اس کے عوام کو بڑے فوائد پہنچیں گے۔ گزشتہ روز وزیراعظم اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ بیلاروس کے دورے پر پہنچے اور وہاں ناصرف ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ہنرمندوں کو بیلاروس بھیجنے پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق ہوا بلکہ کئی شعبہ جات میں معاہدات بھی طے پائے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور بیلاروس کے درمیان پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور ہنرمند نوجوانوں کو بیلاروس بھیجنے پر اتفاق کرلیا گیا، دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون اور تجارت میں اضافے کے بھی معاہدے کیے گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچے، جہاں میزبان صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا، مسلح افواج نے انہیں سلامی دی اور گارڈ آف آنر پیش کیا، دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔ استقبالیے کے بعد تقریب منعقد ہوئی، جس میں دونوں ممالک کی جانب سے حکام نے مختلف معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے۔ بیلاروس کے صدر اور وزیراعظم پاکستان کی ملاقات کے جاری اعلامیہ کے مطابق پاکستان سے 150,000 سے زائد تربیت یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو بیلاروس بھیجا جائے گا۔ اس حوالے سے لائحہ عمل جلد ترتیب دینے پر اتفاق کیا گیا، زرعی شعبے اور زرعی مشینری کی تیاری کے حوالے سے مشترکہ طور پر کام کیا جائے گا، الیکٹرک گاڑیوں، بسوں کی تیاری اور غذائی تحفظ کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، دونوں رہنماؤں کا دفاعی تعاون اور بزنس ٹو بزنس تعاون بڑھانے کا اعادہ کیا گیا، پاکستان اور بیلاروس کی وزارت دفاع کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا، بیلاروس کی داخلی امور کی وزارت اور وزارتِ داخلہ پاکستان کے درمیان تعاون کا معاہدہ کیا گیا۔ تقریب میں بیلاروس کی فوجی صنعت کی اسٹیٹ اتھارٹی اور وزارت دفاعی پیداوار پاکستان کے درمیان فوجی تکنیکی تعاون سے متعلق 2025 سے 2027 کا لائحہ عمل طے پاگیا، دونوں ممالک کے درمیان ری ایڈمیشن ایگریمنٹ کا معاہدہ بھی طے پایا۔ پاکستان پوسٹ اور بیلاروس پوسٹ کے درمیان پوسٹل آئٹمز کے تبادلے کا معاہدہ بھی ہوا جبکہ بیلاروس کے ایوان صنعت و تجارت اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان کے درمیان تعاون کا معاہدہ بھی طے پایا۔ پاکستانی وفد کے دورہ بیلاروس کے دوران فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور جے ایس سی ایم کوڈور جب کہ ایف ڈبلیو او اور او جے ایس سی ماز کے درمیان بھی مفاہمت کی یادداشت بھی طے پائی ہے۔ بعدازاں وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورے سے دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت ملے گی، دونوں ممالک کے درمیان بزنس فورم تجارت کے فروغ کے لیے اہمیت کا حامل ہے، دوطرفہ تجارت اور اقتصادی تعاون کے مواقع سے حقیقی معنوں میں استفادہ کرنا ہے۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بہترین میزبانی پر بیلاروس کی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں، منسک کی خوبصورتی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے 2015 کے دورۂ پاکستان نے دوستی کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں، بیلاروس کے صدر سے دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے مفید بات چیت ہوئی، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کیلئے مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ ہوا، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی قیادت میں بیلاروس نے نمایاں ترقی کی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، بیلاروس کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع اور سازگار ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہیے، دونوں ممالک کو زرعی اور صنعتی شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ہنرمند بیلاروس میں ناصرف خدمات سرانجام دیں گے بلکہ اس کے ذریعے وسیع زرمبادلہ ملک آئے گا اور ہنرمندوں کو اپنے اہل خانہ کے حالات زندگی کو سنوارنے میں مدد ملے گی۔ مختلف شعبہ جات میں ہونے والے معاہدات بھی خاصے اہم ہیں، جس کے دونوں ممالک کو ثمرات میسر آئیں گے۔ اس تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کا دورۂ بیلاروس ہر لحاظ سے کامیاب قرار پاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی درست سمت کا تعین کرلیا گیا ہے۔ ملک پائیدار معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، کچھ ہی سال میں ملک عزیز کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔
بھارت: مساجد پر قبضوں کے سلسلے
بھارت خود کو تمام مذاہب کے ماننے والوںکا گلدستہ کہتے نہیں تھکتا، حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بھارت میں ہندو اکثریت کو تمام تر حقوق میسر ہیں اور ساری سہولتیں حاصل ہیں جبکہ اقلیتیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ اکثریت اقلیت پر غالب آکر ان کے حقوق غصب کرنے اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے کے درپے رہتی ہے۔ بھارت میں مودی کا تیسرا دور اقتدار ہے۔ ان 11برسوں کے دوران بھارت کو اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے جہنم میں بدل ڈالاگیا ہے، ہندو انتہاپسندی کا غلبہ ہے، اکثریت اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے اور انہیں دبا کر رکھنے کے درپے رہتی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے لوگوں کے ساتھ تمام شعبوں میں بدترین تعصب روا رکھا جارہا ہے۔ ویسے تو سکھ عیسائی، پارسی اور دیگر اقلیتیں بھی تنگ ہیں، لیکن مسلمان خاص نشانے پر رہتے ہیں۔ تعلیم سے لے کر ملازمتوں تک میں اُن کے نصیب میں دھتکار اور تعصب کے سلسلے دراز ہیں۔ بھارت میں پچھلے کئی سال سے مساجد اور مزارات انتہاپسندوں کے خاص نشانے پر ہیں۔ کئی مساجد اور مزارات کو حکومتی سرپرستی میں شہید کیا جا چکا ہے۔ مودی کے ہی دور میں پچھلے برسوں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح ہوا تھا۔ مزارات اور مساجد پر قبضوں اور انہیں شہید کرنے کے سلسلے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی ایک مسجد پر قبضہ کرکے وہاں پوجا پاٹ کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں مودی حکومت کے دور میں مسلمانوں کی تاریخی عبادت گاہوں، ورثے اور ثقافتی شناخت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں، بی جے پی کی پشت پناہی میں، پورے ملک میں مساجد کے خلاف تحریکیں چلارہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وارانسی جیسے تاریخی شہروں میں ایک نیا مذہبی قوم پرستی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ بابری مسجد کیس کے فیصلے کے بعد سے، مساجد کو نشانہ بنانے کا ایک منظم سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ناگپور میں اورنگزیب کے مزار کو ہٹانے کا مطالبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انتہا پسند گروہ، جیسے سناتن رکشا دل اور گروپ فار پروٹیکشن آف سناتن، اس مہم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ ان گروہوں کا دعویٰ ہے کہ مغل دور میں ہندو مندروں کو مساجد میں تبدیل کیا گیا تھا، اور اب وہ ان مندروں کو واپس لینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اترپردیش کے شہر سنبھل میں ایک جامع مسجد کے خلاف عدالتی سروے نے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔ دہلی کے قریب ایک قصبے میں ایک مسجد کو پولیس کی مدد سے زبردستی مندر قرار دے کر قبضہ کرلیا گیا، جہاں بعد میں پوجا بھی کی گئی۔ بھارت میں مسلمانوں پر مظالم اور ان کی عبادت گاہوں پر قبضے کسی طور مناسب نہیں۔ اقلیتوں کو تمام تر تحفظ کی فراہمی کے لیے بیرونی دُنیا کو اپنا کردار ادا کرنا اور ان کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔