صحت

بریسٹ مِلک کیا واقعی باڈی بلڈنگ میں مدد دیتا ہے؟

ماں بننے کے بعد عورت کی چھاتی میں اترنے والا دودھ نوزائیدہ بچے کے لیے پہلی غذا کے طور پر اس کی تمام ضروریات ہوری کرتا ہے تاہم اب بہت سے بالغ افراد میں یہ رجحان فروغ پانے لگا ہے کہ ’بریسٹ ملک‘ ان کی صحت کے لیے بھی ’سپر فوڈ‘ جیسی صلاحیتوں کا حامل ہو سکتا ہے۔

یہ دودھ اپنے اندر کچھ ایسی جادوئی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے جس کے باعث اکثر لوگ اسے ’لیکویڈ گولڈ‘ یعنی مائع سونا بھی کہتے ہیں جس سے اس کی بیش بہا قدر و قیمت کو سمجھنا آسان ہے۔

سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ ماں کا دودھ بچوں کے لیے غذائی اجزا اور اینٹی باڈیز فراہم کرتا ہے اور ان کی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

39 سالہ جیمسن تین بچوں کے باپ ہیں اور انھوں نے پہلی بار اس وقت بریسٹ ملک پینے کا تجربہ کیا جب ان کی ساتھی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھیں تاہم یہ دودھ بچے کی ضرورت سے کہیں زیادہ تھا۔
انھوں نےبات چیت میں بتایا کہ ’میں نے اس دودھ کی اضافی مقدار کو اپنے شیک میں مکس کیا اگرچہ یہ مجھے تھوڑا سا عجیب سا لگ رہا تھا۔‘

جیمسن یوٹیوب کی ایک ویڈیو دیکھنے کے بعد ماں کے اندر موجود قدرتی دودھ کے فوائد کے بارے میں متجسس ہوگئے تھے جس میں ایک باڈی بلڈر نے اسے پینے کے اثرات کے بارے میں آگہی دی تھی۔
’میں شاید زندگی کی بہترین جسمانی حالت میں تھا‘

اس تجربے کے بعد پارٹنرساتھی کا چھاتی کا دودھ پینا جیمزن کے معمول کا حصہ بن گیا۔ ان کے پاس اس لیکویڈ گولڈ کے دو بیگز ہوتے تھے جن میں تقریباً آٹھ اونس دودھ ہوتا تھا۔

انھوں نے اپنے تجربے کے حوالے سے کہا کہ ’میں شاید اپنی زندگی کی بہترین جسمانی حالت میں تھا۔‘

’اس سے مجھے اپنے مسلز (پٹھے) بنانے اور وزن کم کرنے میں مدد مل رہی تھی۔ اس کے علاوہ تقریباً آٹھ ہفتوں میں پٹھوں میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہو رہا تھا۔‘

جیمسن کا دعویٰ ہے کہ جب سے انھوں نے انسانی دودھ کو اپنی خوراک کا حصہ بنایا ہے انھیں یاد نہیں کہ وہ کبھی بیمار ہوئے ہوں یہاں تک کہ انھیں ’نزلہ زکام تک نہیں ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایک بچے کی طرح بڑا ہونا اور بچوں کی طرح سونا چاہتا تھا، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں خوراک بھی بچوں والی لوں گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں اچھا محسوس کر رہا تھا اور میں اچھا لگ بھی رہا تھا.‘

آن لائن خریداری خطرناک کیوں؟
سائنسدانوں کے مطابق اس بات کے کوئی سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں کہ بریسٹ مِلک پینا بالغوں کے لیے مفید ہے۔

لیکن چند ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فائدہ مند ہو سکتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے اس کی کچھ مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

ڈاکٹر لارس بوڈ امریکہ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ہیومن ملک انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس میں بہت زیادہ پروٹین ہوتے ہیں جس کے باعث بچوں کے پٹھے بہت تیزی سے بڑھتے ہیں اور یقیناً باڈی بلڈر بھی یہی چاہتے ہیں۔‘

’باڈی بلڈرز اپنے جسم کے بارے میں بہت باخبر ہوتے ہیں اور یہ یقینی طور پر بتا سکتے ہیں کہ ان کے جسم پر کسی خاص غذا کا کیا اثر ہو رہا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اس کے پیچھے موجود سائنس کو نہیں جان سکے۔‘

ڈاکٹر لارس بوڈ نے اس کے حوالے سے بہت احتیاط برتنے کا مشورہ بھی دیا۔ ان کے مطابق انسانی دودھ اکثر فیس بک اور ریڈٹ پر موجود غیر مصدقہ یا مشکوک ذرائع سے خریدا جاتا ہے۔

ڈاکٹر لارس نے خبردار کیا کہ ’مشکوک ویب سائٹس پر ملنے والے دودھ کا استعمال صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ ایچ آئی وی یا ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ماں کا دودھ مفید تب ہی ہوتا ہے جب اس خاتون کی اپنی خوراک اور عمومی صحت اچھی ہو۔ دوسری جانب یہ کئی قسم کے انفیکشن پھیلانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

’خواتین اکثر ایسے ماحول میں دودھ پمپ کرتی ہیں جو حفظان صحت کے مطابق نہیں ہوتا اور اس وجہ سے دودھ آسانی سے آلودہ ہو سکتا ہے۔‘
امریکہ کے نیشن وائیڈ چلڈرن ہسپتال کے 2015 میں کیے گئے ایک مطالعے کے دوران آن لائن خریدے گئے چھاتی کے دودھ کے 101 نمونے لیے گئے جن کے تجزیے میں 75 فیصد میں نقصان دہ بیکٹیریا اور 10 فیصد نمونوں میں گائے کا دودھ یا شیرخوار بچوں کے لیے بنائے جانے والے فارمولا ملک کی ملاوٹ شامل تھی۔

جب جیمسن کی اپنے ساتھی سے علیحدگی ہو گئی اور ان کے فریزر میں رکھے چھاتی کے دودھ کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو انھوں نے اسے آن لائن خریدنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم وہ دودھ کی آلودگی کے خطرات سے لاعلم تھے۔ جیمسن نے کہا کہ ’میں نے اسے انٹرنیٹ پر ایک انجان آدمی سے خریدا لیکن اس کو پہلے فیس بک پر چیک کیا تو مجھے وہ ٹھیک لگ رہا تھا۔ لہذا میں نے ایک خریدنے کا فیصلہ کیا۔‘

دوسری جانب سائنسی شواہد اور ڈیٹا کی کمی نے انھیں پریشان نہیں کیا کیونکہ ان کا اپنا تجربہ بہت مثبت تھا۔

انھوں نے کہا کہ جو چیز اس میں آڑے رہی وہ منفی سماجی رویے تھے جس کا انھیں سامنا تھا۔

’لوگ مجھے بالکل مختلف نظروں سے دیکھتے تھے، کیونکہ ذہنی طور پر معاشرے نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ دودھ صرف بچوں کے لیے ہے۔ لیکن یہ اتنا عجیب نہیں جتنا لوگ سوچتے ہیں۔‘

کمزور بچوں کے لیے دودھ کی فروخت میں خطرہ

ڈاکٹر میگھن کی تحقیق کا موضوع ہے کہ انسانی دودھ بچوں کی صحت میں کس طرح مدد کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں بالغ افراد کو ماں کا دودھ پینے کا مشورہ کبھی نہیں دوں گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے انھیں کوئی نقصان پہنچے گا لیکن یہ ان بچوں کے لیے ایک ممکنہ نقصان ہے جنھیں واقعی ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچے جو وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور جنھیں باآسانی ماں کا دودھ میسر نہیں ہو پاتا۔‘

ڈاکٹر لارس بوڈ کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ انسانی دودھ ضرورت مند بچوں کو عطیہ کرنا چاہیے اور محض منافع کے لیے فروخت نہیں کرنا چاہیے۔

’ہمارے پاس اتنا دودھ نہیں کہ وہ کمزور بچوں کی ضرورت کو پورا کر سکے۔ ماں کے دودھ میں ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں بیماریوں کا علاج کر سکتی ہیں۔ یہ زندگی بچانے والا ہو سکتا ہے۔‘

جواب دیں

Back to top button