قیدی خود کفیل ہو سکیں گے

امتیاز عاصی
کئی سال پہلے ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ میں فٹ بال بنانے والے قیدیوں کو معاوضہ دینے کی شنید تھی۔ ہمیںیہ بات گراں گزرتی پنجاب کی سنٹرل اور بہت سی ضلعی جیلوں کی فیکٹریوں میں فرنیچر اور قالین بافی کا کام کرنے والے قیدیوں کو اجرت کیوں نہیں ملتی ۔درحقیقت بامشقت سزائیں قیدیوں کی مشقت سے عبارت ہیں ورنہ مشقت نہ کرائی جائے تو سزا کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔فٹ بال بنانے والے قیدیوں کو معاوضہ کی ادائیگی اور فیکٹریوں میںمشقت کرنے والے قیدیوں کو معاوضہ کی عدم ادائیگی سے ہمارا دھیان آئین میں لکھے ان الفاظ کی طرف چلا گیا جس میں کہا گیا ہے کسی شہری سے امتیاز ی سلوک روا نہیںرکھا جا سکتا۔اس کے ساتھ یہ خیال آتا ہے آئین تو ہے عمل درآمد کافقدان ہے جس کے بعد دل کو تسلی ہو جاتی ہے۔تاہم یہ امر خوش آہند ہے پنجاب کی جیلوں میںمختلف انواع کی اشیاء بنانے والے قیدیوں کو معاوضہ دیا جائے گا جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کم از کم قیدی دوران قید اپنے اہل خانہ پر بوجھ نہیں بنیں گے۔ حیرت ہوتی ہے صوبے کی بہت سی جیلوں کو چھوڑ کر شاہ پور کی ضلعی جیل کو کیوں اس مقصد کے لئے مرکز بنا یا گیا ہے جہاں بہت سی پروڈکیٹس بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔بہت کم لوگ جانتے ہیں انگریز دور میں شاہ پور ضلع ہوا کرتا تھا جو اب سرگودھا کی تحصیل ہے۔شاہ پور اسی دور کی جیل ہے جہاںکے قیدیوں بارے مشہور ہے وہ پیار سے بات سے مان لیتے ہیں رعب سے نہیں مانتے ۔چندروز پہلے کی بات ہے وہاں کے سپرنٹنڈنٹ نے قیدیوں کو مسجد جانے سے روکا تو قیدی برہم ہو گئے جس کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا۔پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کو ہنرمند بنانے کا کام کئی سال پہلے شروع ہو چکا ہے وفاق کا ادارہ ٹیوٹا کے زیر اہتمام قیدیوں کو الیکٹریشن اور ویلڈنگ کا کام سیکھایا جا تاہے تاکہ رہائی کے بعد وہ روزی کمانے کے قابل ہو سکیں۔کئی عشرے پہلے جیلوں کے ماحول پر نظر ڈالیں تو انسان ورطہ حیرت میںرہ جاتا ہے قیدیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا اب جیلوں میں پانی کے کئی کئی بور ہیں جہاں سے انہیں تازہ پانی ہمہ وقت میسر ہے۔شاہ پور کی جیل میں قیدی صابن، پرفیوم، ایل ای ڈی، بلب، ٹشوپیپر، ٹائلیں، برتن اور فینائل بنانے لگے ہیں ۔اس کے ساتھ قیدیوں کو موٹر مکینک، حجام، خانساماں اور آئی ٹی کے کورسز بھی کرائے جا رہے ہیں۔ خانسامے سے یاد آیا قیدیوں کو خانسامے کا کام سیکھانے کا ایک مقصد جیلوں کے لنگر خانوں میںایسے قیدیوں سے روٹی اور سالن پکانے کا کام لیناہے ۔گو جیلوں میں روٹی پکانے کے لئے سوئی گیس کے پلانٹ جیسی سہولتیں موجود ہے جیلوں میں قیدیوں کے لئے مشکل ترین مشقت لنگر خانے کی ہوتی ہے قیدیوں کی حتمی المقدور کوشش ہوتی ہے انہیں جیل آنے کے بعد مشقت کے لئے لنگر خانے نہ بھیجا جائے۔اس مقصد کے لئے وہ سب اچھا کرتے ہیں ۔سب اچھا جیل کی مخصوص زبان میں رشوت کو کہا جاتا ہے ۔بعض جیلوں میں کم از کم آٹھ ہزار روپے ماہانہ سب اچھا چل رہا ہے ۔کسی جیل میں چار سو قیدیوں کو لنگر خانے کی مشقت پر رکھا گیا ہے تو دوسو قیدی سب اچھی پر ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو حجام کی تربیت سے یاد آیا بسا اوقات سزایاب ہونے والے قیدیوں میں حجام بھی آجاتے ہیں جنہیں مشقت کے لئے قیدیوں کی ہیر کٹنگ پر لگا دیا جاتا ہے ۔جیلوں میں نظم وضبط کی طرف جائیں تو جن قیدیوں کوہیر کٹنگ پر لگایا جاتا ہے انہیں کٹنگ کا سامان جیل کے سنٹرل ٹاور سے مہیا کیا جاتا ہے جونہی شام ہوتی ہے حجام قیدیوںکو کٹنگ کا سامان سینٹرل ٹاور میںآکر جمع کرانا ہوتا ہے۔ایک خاص بات جس کی طرف توجہ دلانے کی جسارت کر رہا ہوں حجام قیدی قیدیوں کی کٹنگ کا کام بلا معاوضہ کرتے ہیں بعض ٹوری قیدی انہیں معمول سی ہٹ کر جب کٹنگ کے لئے بلاتے ہیں تو انہیں خاصے پیسے ملتے ہیں۔جیلوں میں یہ معمول ہے حجام قیدی قیدیوں سے وصول ہونے والی رقم کا کچھ حصہ سنٹرل ٹاور میں امدادی ہیڈ وارڈرز کے پاس جمع کراتے ہیں۔سینٹرل جیلوں اور بعض ڈسٹرکٹ جیلوں میں حجام قیدی اور وہ قیدی جنہیں سنٹرل ٹاور میں ردیف رجسٹر پر لگایا جاتا ہے قیدیوں کی گنتی بیرکس میں تبدیلی کے موقع پر جو نذرنہ وصول کرتے ہیں اس سے کچھ رقم بچا کر اپنے گھروں کو بھی بھیجتے ہیں۔ ایک قیدی نے بتایا وہ جیل میں نگران تھا جنہیں ماضی میں نمبر دار کہا جاتا تھا ایک عدالتی حکم کے بعد جن قیدیوں سے ایسے کام لئے جاتے تھے انہیں اب نمبر دار کی بجائے نگران کہا جاتا ہے وہ کئی ہزار روپے ماہانہ گھر والوں کو بھیجتا ہے۔نگران قیدی کی بات میں وزن اس لئے بھی ہے ایسے قیدی بیرکس میں جب قیدیوں کی تلاشی کے لئے جاتے ہیں دوران تلاشی وہ قیدیوں کے پاس کئی غیر قانونی اشیاء چھوڑ دیتے ہیں جس کے عوض قیدی نگرانوں کو ممنون کرتے ہیں۔ایک وقت تھا جب قیدیوں سے مشقت کے لئے مونج کوٹنے کا کام لیا جاتا تھا جو مشکل ترین مشقت تھی۔آج کل مشقت وہی قیدی کرتے ہیں جو لاوارث ہوتے ہیں ۔ جن قیدیوں کی باقاعدگی سے ملاقات آتی ہو ایسے قیدی سب اچھا کرکے مشقت سے جان چھڑا لیتے ہیںالبتہ ان کا نام لنگر پر مشقت کرنے والے قیدیوں کی فہرست میں ہی ہوتا ہے۔آج کل جیلوں کے ماحول میں خاصی تبدیلیاں آچکی ہیںجو سہولتیں قیدیوںآج کل میسر ہیں پرانے وقتوں میں ان تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔جہاں تک قیدیوں کو ہنرمند بنانے کی بات ہے ہنرمند ہونے کے بعد قیدی جرائم کی بجائے باعزت روزی کمانے کے قابل ہو سکیں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے چند ماہ پہلے جیلوں میں اصلاحات لانے کے لئے کمیٹی قائم کی تھی جس نے چیف جسٹس کو جیلوں میں قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کے لئے سفارشات پیش کرنا تھیں ۔ہم تو کہیں گے قیدیوں کو معمولی معمولی شکایات پر دوسری جیلوں میں بھیجنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔قیدیوں کو سزا کے طور پر دور دراز جیلوں میں بھیجنے سے قیدیوں کے ساتھ ان کے خاندان کے لوگوں کو بھی ذلیل وخوار ہونا پڑتا ہے۔