افغان، امریکہ تعلقات۔ نیا دور

محمد مبشر انوار (ریاض)
ریاستوں کے مابین تعلقات کی نوعیت روز اول سے ہی ریاستی مفادات کی بنیاد پر طے ہوتی ہیں اور بیدار مغز قیادتیں ریاستی مفادات کا تحفظ غیرت و حمیت کے ساتھ کرتی ہیں بشرطیکہ قیادت ریاست کے ساتھ کے مخلص ہواور ذاتی مفادات کو تج دینے کی اہلیت رکھتی ہوں بصورت دیگر نہ صرف ریاستی مفادات کا نقصان اٹھاتی ہیں بلکہ ریاستی نمو کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کل تک افغان آزادی کی جنگ لڑنے والے طالبان ،وقت کے دھارے میں اس حد تک جا پہنچے گے کہ وہ جارح امریکی ریاست کے ساتھ مذاکرات کی میز پر یوں بیٹھے نظر آئیں گے کہ وہ اپنے زیر حراست امریکی قیدی کو امریکی مطالبہ پر ،انتہائی آسانی کے ساتھ آزادکردیں گے۔کہاں وہ وقت کہ جب امریکہ کی جانب سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ ماننے سے انکار کرنے پر ،افغانستان پر سخت ترین جارحیت مسلط کر دی گئی لیکن افغانستان نے اپنی ریاست کے مہمان اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ تسلیم نہ کیا،ریاست پر جنگ مسلط کروائی،حکومت سے دستبرداری قبول کی لیکن امریکی مطالبے کوتسلیم نہ کیا اور کہاں آج یہ دور کہ امریکہ کے مطالبہ کرنے پر بآسانی امریکی زیر حراست شہری کو آزاد کر دیا۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امریکی مطالبے میں فرق کیا تھا اور جس شخص کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھا،اس کی حیثیت کیا تھی؟کیاآج بھی اگر امریکہ کسی ایسے شخص کی حوالگی کا مطالبہ کرتا،جو افغان سرزمین پر ’’ مہمان‘‘ہوتا تو کیا افغان حکومت ماضی کے برعکس اسے امریکہ کے حوالے کر دیتی؟یقینا نہیں! کہ افغان سرزمین پر کسی مہمان کو کسی دوسرے ملک کی فرمائش پر امریکہ کے حوالے نہ کیا جاتا لیکن کسی امریکی شہری کے زیر حراست ہونے پر ،امریکی مطالبے کو تسلیم کرناکسی بھی صورت اس سے مماثلت نہیں رکھتا بلکہ اس کو افغان حکومت کی دانشمندی کہا جا سکتا ہے کہ بلاوجہ کسی مسئلے میں الجھنے کی بجائے،امریکی شہری کو امریکہ کے حوالے کرکے نہ صرف ذمہدار ریاست کا ثبوت دیا بلکہ مزید کسی مشکل میں پھنسنے سے بچا لیا۔ اس کو دوسری نظر سے دیکھا جائے تو کیا افغان حکومت اپنی فطری جبلت سے ہٹ گئی ہے؟یا جنگ و جدل سے خوفزدہ ہو چکی ہے؟تو یقینا ایسی کوئی بھی بات نہیں بلکہ ایک ایسے امریکی شہری کو امریکہ کے حوالے کرنا،جسے امریکہ بہتر طریقے سے سزا دے سکتا ہے،زیادہ مناسب ہے جبکہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے حالات و واقعات کلیتا مختلف تھے لہذا اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا گیاخواہ اس کا خمیازہ کتنا ہی بھگتا لیکن روایتوں سے روگردانی نہیں کی۔اسی طرح امریکہ کا دوسرا مطالبہ کہ امریکہ جو اسلحہ ،انخلاء کے وقت افغانستان میں چھوڑ گیا تھا،وہ امریکہ کو واپس کیا جائے،اور حیرت انگیز طور پر افغانستان نے،امریکہ کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا،لیکن اس اسلحہ کی واپسی کیسے اور کس طرح ممکن ہو گی،یقینی طور پراس کا لائحہ عمل طے کیا جائیگا اور بتدریج اس اسلحہ کی واپسی کو ممکن بنایا جائیگا۔
تیسرا اور اہم ترین مطالبہ بگرام ائیر بیس پر امریکی قبضہ سے متعلق ہے،جس پر معاملات بگڑنے کا خدشہ و امکان بہرکیف موجود ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں موجود ہونا ،کن ریاستوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ سابق امریکی حکومت کا یوکرین میں مداخلت کا سبب،روس کے پڑوس میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا تھا،جس کے لئے سابق امریکی حکومت کسی بھی حد سے گزرنے کے لئے تیار دکھائی دیتی تھی تاہم روس کی جانب سے سخت ترین مزاحمت و جارحیت نے امریکی خواہش کو بر نہ آنے دیا۔بعد ازاں امریکی قیادت تبدیل ہونے کے بعد ،معاملات یکسر بدل چکے ہیں اور اب امریکہ و روس کے درمیان تعلقات کی نوعیت مکمل طور پر بدل چکی ہے۔امریکہ یوکرین کو کھڈے لائن تو لگا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روس میں سرمایہ کاری کا عندیہ ،دونوں ریاستوں کے درمیان مخاصمتی تعلقات کے برعکس دوستانہ تعلقات کو پروان چڑھتے دکھا رہا ہے،مستقبل قریب اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ کیا واقعی دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت بدل جائے گی؟نئے امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کو دیکھیں تو بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ وہ اقوام عالم میں جاری جنگوں کوختم کرکے،امن کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں لیکن کیا ٹرمپ کے لئے یہ ممکن ہو سکے گا؟بالخصوص جب مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی ناجائز ریاست،امریکی خواہشات کے برعکس ماہ رمضان میں جنگ بندی معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے،نہتے فلسطینی مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے باز نہیں آرہی؟اور دوسری طرف جنگ بندی کی خواہش رکھنے کے باوجود ،امریکہ کا بگرام ایئر بیس پر قبضہ کرنے کا مطالبہ ،کسی بھی طور امریکی امن منصوبے سے میل کھاتا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ دائیں دکھا کر بائیں مارنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ بالفرض امریکہ بگرام ایئر بیس پر بیٹھ جاتا ہے تو نقصان کس ریاست کا ہے،یا کس ریاست کے لئے امریکہ کو بگرام ایئر بیس پراپنی موجودگی کی ضرورت ہے؟
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس خطے میں ،فی الوقت امریکہ کو سب سے زیادہ تشویش چین سے ہے کہ ایک طرف چین معاشی دیو کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے تو دوسری طرف چین ایک بڑی عسکری قوت کے طور پر بھی ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ جاری رسہ کشی میں چین نے تن تنہا،بھارت کوامریکی واسرائیلی پشت پناہی کے باوجود ،تبت میں ناکوں چنے چبوائے ہیں اور لداخ کے وسیع تر رقبے کو اپنے قبضے میں لے کر اسے مستحکم کر چکا ہے اور بھارت ،امریکی پشت پناہی کے باوجود وہاں شکست کھا چکا ہے۔ دوسری طرف چین اپنے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ پر سی پیک میں غیر ضروری تاخیر کے باعث،متبادل راستوں کی تلاش میں ،افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے اور افغانستان میں طویل ترین جنگ کے باوجود،وہاں نیا انفراسٹرکچر کھڑا کر رہا ہے،کیا چین افغانستان کے بگرام ایئر پیس پرامریکی موجودگی کو برداشت کر لے گا؟اور کیا افغانستان اس کا بوجھ اٹھا پائے گا؟کیا اس سارے منصوبہ کے پس پردہ کہیں امریکی ،چین و روس کو ایک دوسرے کے سامنے تو کھڑا نہیں کرنا چاہتے ؟جو اس وقت تک کہیں ایک معاملات میں اکٹھے دکھائی دیتے ہیں۔دوسری طرف یہ بھی تو ممکن ہے کہ کل تک جو شکایت و شکوہ افغانستان کو پاکستان سے تھا،آنے والے وقت میں پاکستان یہی شکوے و شکائتیں ،افغان حکومت سے کرتا دکھائی دے؟ ویسے یہ شکائتیں تو پاکستان اس وقت بھی افغانستان سے کر رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان کا موقف یہی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں استعمال ہوتی ہے جبکہ افغانستان اس کا تدارک کرنے میں ناکام ہے۔ گو کہ پاکستان کے سفارت کار اس مسئلے پر گفتگو کے لئے افغانستان گئے ہیں اور امید یہی کی جارہی ہے کہ وہ افغان حکومت کو ٹھوس شواہد فراہم کریں گے اور یہ مطالبہ بھی کریں گے کہ افغان اپنی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں وگرنہ معاملات مزید بگڑنے کا قوی امکان ہے۔ بہرطور اگر امریکی بگرام ایئر بیس پر وارد ہو جاتے ہیں توواضح طور پر خطرہ چین کو ہی لاحق ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کے لئے بھی خیر کا کوئی امکان باقی دکھائی نہیں دیتا۔
اس پس منظر میں افغانستان کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے انتہائی احتیاط کے ساتھ کام لینا ہو گا کہ کہیں امریکی خواہشات کے احترام میں ترقی و خوشحالی کا جو سفر چین کے سنگ ،افغانستان میں شروع ہوا ہے،اسے پروان چڑھنے سے قبل ہی دبا نہ دیا جائے۔ تاحال افغانوں نے افغانستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں،ان سے افغانستان میں ترقی کے آثار دکھائی دیتے ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں کہیں،افغانستان اپنے حالیہ محسن چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہ کربیٹھے کہ غیروں کے بہکاوے میں آکر ،افغانستان پہلے ہی اپنے سب سے بڑے محسن ،پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کر رہا ہے،بہرطور ان مذاکرات کے بعد اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ افغان امریکہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہورہا ہے اور دعا ہے کہ یہ خطے کے لئے بہتر ثابت ہو۔