Column

چترال اور گلگت بلتستان کے گلیشیرز

ڈاکٹر رحمت عزیز
خان چترالی

جہاں قدرت کی صناعی میں گلیشیرز کا ایک منفرد مقام ہے وہاں چترال اور گلگت بلتستان کے گلیشرز کے پھٹنے سے خطرناک سیلاب کی صورت میں تباہی بھی ہوتی ہے۔ ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے گلیشرز کے آہستہ آہستہ پگھلنے سے ملک کے پانی کا مسئلہ حل ہوتا ہے لیکن ان کے پھٹنے سے سیلابی ریلے کی صورت میں تباہی سے ملک کو کافی نقصان بھی پہنچتا ہے۔ یہ گلیشرز نہ صرف زمین کے قدرتی حسن کو دوبالا کرتے ہیں بلکہ کرۂ ارض پر زندگی کے تسلسل کی ضمانت بھی ہیں۔ گلیشیرز دنیا کے ماحولیاتی نظام کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پانی کے سب سے بڑے ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال دنیا بھر میں پہلی مرتبہ گلیشیرز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔
قدرتی عوامل کے تحت بننے والے گلیشیرز صدیوں سے انسانی تہذیبوں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ قدیم زمانے میں گلیشیرز کو چترال اور گلگت بلتستان کی دیومالائی کہانیوں اور روایات کا حصہ سمجھا جاتا تھا، لیکن جدید سائنس نے ان کی حیاتیاتی اور ماحولیاتی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔
پاکستان میں ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے دنیا کے چند بڑے گلیشیرز کا مسکن ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 13ہزار سے زائد گلیشیرز موجود ہیں جو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ گلیشیرز پاکستان کے دریاں کے بڑے ماخذ ہیں اور زراعت، توانائی اور پینے کے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف نے گلیشیرز کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں گلیشیرز کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا بجا ہے کہ اگر یہ قدرتی خزانے ختم ہو گئے تو ان سے منسلک زندگیاں شدید خطرات سے دوچار ہو جائیں گی۔
ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور پاکستان بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 10ہزار سے زائد گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سیلاب، خشک سالی اور دیگر ماحولیاتی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ گلیشیرز کے پگھلائو کے باعث پانی کی فراہمی میں شدید کمی کا خدشہ ہے جو زرعی نظام، پینے کے پانی اور ہائیڈرو پاور جیسے شعبوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے
ہیں۔ بدلتے موسم اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبب نہ صرف گلیشیرز کی تعداد کم ہو رہی ہے بلکہ ان کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے شدید ماحولیاتی اور اقتصادی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ گلیشیرز کے پگھلنے سے گلاف ( گلیشیر لیک آئوٹ برسٹ فلڈ) جیسے تباہ کن سیلاب آ رہے ہیں جو کئی دیہات اور زرعی زمینوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اگر گلیشیرز کی تباہی کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کو مستقبل میں پانی کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا دارومدار زراعت پر ہے، اور دریاں کے پانی کی بڑی مقدار ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے گلیشیرز کے پگھلنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ان کے ختم ہونے سے زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس سنگین صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گلیشیرز کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ درج ذیل اقدامات اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
حکومت کو جدید سائنسی ٹیکنالوجی اور سیٹلائٹ سسٹمز کے ذریعے گلیشیرز کی مستقل نگرانی کرنی چاہیے تاکہ ان کے پگھلنے کی رفتار کو سمجھا جا سکے۔
ماحولیاتی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کر کے جنگلات کی کٹائی روکی جائے، کیونکہ درخت فطری طور پر درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ڈیمز، واٹر ریزروائرز اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے نظام میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ پانی کی قلت کے بحران سے نمٹا جا سکے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کرے۔
اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ گلیشیرز کے فوائد اور ان کے تحفظ کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی سطح پر گلیشیرز کا دن منانے کا آغاز کیا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں پانی کا بحران پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے گلیشیرز کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اگر فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ نسلوں کو شدید ماحولیاتی اور اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں چاہیے کہ گلیشیرز کی حفاظت کے لیے اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور عملی اقدامات کریں تاکہ یہ قدرتی خزانے محفوظ رہ سکیں اور ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ایک مستحکم مستقبل کی ضمانت بن سکیں۔
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

جواب دیں

Back to top button