برصغیر کے مسلمانوں کا سیاسی عہد: قرارداد پاکستان

تحریر : ڈاکٹر جمشید نظر
لاہور میں واقع اقبال پارک کو قیامِ پاکستان سے قبل منٹو پارک کہا جاتا تھا جوکہ سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا۔ منٹو پارک میں 23مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک ایسا تاریخی اجلاس ہوا، جس نے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا، لاکھوں مسلمانوں کے اس تاریخی اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی جسے قرار داد پاکستان کہا جاتا ہے، اس قرار داد نے انگریزوں اور ہندووں پر واضح کر دیا تھا کہ برصغیر میں رہنے والے مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا قیام ضروری ہے۔ تاریخ کے اس اہم ترین فیصلہ کی بنیاد پر تقریبا سات سال بعد پاکستان کا قیام عمل میں آگیا، اسی لئے ہر سال 23مارچ کو قومی جوش و جذبہ کے ساتھ قرارداد پاکستان کا جشن منایا جاتا ہے ۔ قرارداد پاکستان کی یادگار کے طور پر 23مارچ 1960ء میں اقبال پارک لاہور میں مینار پاکستان کی تعمیر شروع کی گئی جو تقریبا آٹھ سال میں مکمل ہوئی۔
مسلمانان ہند کے لئے الگ وطن کے مطالبہ پر قائد اعظم ؒ سے کئی مرتبہ مختلف انداز میں سوالات پوچھے جاتے جن کے جوابات قائد بڑی ذہانت سے دیتے تھے۔ سر آغا خان نے اپنی کتاب میں قائد اعظمؒ اور صحافی کے درمیان ایک دلچسپ گفتگو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ مشہور صحافی بیورلے نیکولسن نے قائد ِاعظمؒ سے سوال کیا کہ آپ کس اصول کے تحت پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں؟، تو جناح نے پیارے انداز میں جواب دیا کہ صرف چار لفظوں کی بنیاد پر ’’Muslims are a Nation‘‘۔ اسی طرح ایک مرتبہ قائد اعظمؒ طلباء سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک ہندو طالبِ علم نے قائد سے سوال کیا کہ’’ آپ پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں، ہندو اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟، قائداعظم ؒ کچھ دیر خاموش رہے پھر پانی کا ایک گلاس منگوایا،آپؒ نے اس میں سے ایک گھونٹ پانی پیا اور گلاس میز پر رکھ کر ہندو طالبِ علم کو بلایا اور ا سے پینے کو کہا۔ ہندو طالبِ علم نے پانی پینے سے صاف انکار کر دیا۔ قائداعظمؒ نے اسی لمحہ ایک مسلمان طالب علم کو بلا کر پانی پینے کا کہا تو اس نے فوری وہ پانی پی لیا۔ اس پر آپؒ نے کہا کہ ’’ دونوں قوموں میں بس یہی فرق ہے، اسی لئے میں مسلمانوں کیلئے الگ ملک بنانا چاہتا ہوں‘‘۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ مرتب کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے تاریخ داں اور مصنف اسٹینلے والپرٹ نے قائد اعظم کی سوانح حیات پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا ٹائٹل ہے ’’ جناح آف پاکستان‘‘۔ سن1982ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قائد اعظمؒ کے بارے میں شائع ہونے والی مستند ترین کتب میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں قائد اعظمؒ کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جب قائد اعظم ؒ کو آخری ایام میں ڈاکٹروں نے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا تو آپؒ نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ سے مخاطب ہوکر کہا ’’ فاطی، کیا تم نے کبھی کسی جرنیل کو اُس وقت رخصت پر جاتے ہوئے دیکھا ہے جب اس کی فوج میدانِ جنگ میں اپنی بقا کے لئے مصروفِ پیکار ہو؟‘‘، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے جواباََ کہا کہ ’’ آپؒ کی زندگی بہت قیمتی ہے‘‘۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا ’’ مجھے تو ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں کی فکر ہے‘‘۔ قائد کی یہ فکر ہندوستان کے دو قومی نظریے کو مزید واضح کر رہی تھی۔
ایک مرتبہ سن1941ء میں قائد اعظمؒ مدراس میں مسلم لیگ کا جلسہ کرکے واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک قصبہ سے گزر ہوا جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا، سب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک آٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا، اسے دیکھ کر قائدؒ نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کر پوچھا ’’ تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو؟‘‘ ، لڑکا گھبرا گیا۔ قائدؒ نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھر وہی سوال پوچھا۔ لڑکا بولا ’’ پاکستان کا بہتر مطلب آپ جانتے ہیں، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندووں کی حکومت وہ ہندوستان‘‘۔ قائد اعظمؒ نے اپنے ساتھ آئے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مدراس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ یہ بات صحافی نے نوٹ کرلی اور اگلے روز تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوگئی اور دنیا جان گئی کہ قرار داد پاکستان نے بچہ بچہ کو سمجھا دیا ہے کہ پاکستان کیا ہے۔