شب قدر کی فضیلت و عظمت

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی رحمتوں ،برکتوں اور خیرات وحسنات سے معمور ہے کیوں کہ آپﷺ نے اس کے پہلے عشرے کو رحمت،دوسرے کو مغفرت اور تیسرے کو جہنم سے آزادی کا عشرہ قرار دیا ہے۔گویا آخری عشرہ اس ماہ خیر کی برکتوں کے عروج کا عشرہ ہے ان دس دنوں میں الرحمٰن،الرحیم،الغفاراور العفو،کبریائی شانیں اپنے اوج کمال پر ہوتی ہیں اور ارحم الراحمین کی شان مغفرت ہے دریغ گناہ گاروں کو عذاب نار سے پروانہ آزادی عطا فرمائی ہے لہٰذا فرمایا یہ دُعا کثرت سے ورد زبان رکھنی چاہیے۔ شب قدر ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک طاق رات ہے جسے سورۃ الدخان میں لیلۃالمبارک اور سورۃ القدر میں لیلۃ القدر یا شبِ قدر کہا گیا ہے۔ ’’ قدر‘‘ کے ایک معنی بعض مفسرین کے نزدیک تقدیر کے ہیں اور ’’ شب قدر‘‘سے مراد ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ انسانوں کی تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کیلئے فرشتوں کے سپرد کرتا ہے ۔اس کی تائید میں میں سورۃ الدخان کی آیت نمبر4میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ : ’’ اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے‘‘۔ امام زہر اور چند دوسرے مفسرین کے نزدیک ’’ قدر‘‘ کے دوسرے معنی عظمت اشرف اور قدرومنزلت کے ہیں اور شب قدر سے مراد ایسی رات ہے جو بڑی عظمت اور قدرومنزلت والی ہے۔ اس کی تائید سورۃ القدر کی آیت نمبر3میں یوں ہوتی ہے۔ ترجمہ: ’’ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ بہر کیف دونوں معانی مقصود ہیں جن کی تصدیق مختلف مقامات پر آیات قرآنی ،احادیث نبویﷺ اور قوال علما اور محدثین سے ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ کے ہزار مہینوں میں انسانی بھلائی کیلئے اتنا کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں کر دیا گیا ہے۔اس رات کو فرشتے اور جبریل امین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں اور یہ شب شام سے صبح تک سراسر سلامتی کی رات ہوتی ہے اور اس میں کسی شرکا دخل نہیں ہوتا۔ سورۃ الدخان کی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’ ہم نے اسے ( قرآن ) کو لیلتہ المبارک یعنی برکت والی رات میں نازل کیا‘‘۔ سورۃ القدر کی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’ ہم نے اس ( قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں، وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک‘‘۔
وہ مقدس رات جس میں غارحرا میں حضورﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی وہ شب قدر تھی۔ویسے تو ماہ رمضان المبارک کے تمام دن اور راتیں رحمتوں اور برکتوں سے مزین ہوتے ہیں لیکن اسی مبارک مہینے کے آخری عشرہ کی ایک طاق رات جسے شب قدر کہا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘۔ قرآن مجید فرقان حمید کے نزول کا سلسلہ اسی شب قدر کو شروع ہوا تھا، جو 23سال تک حضرت جبریلٌ وقتاً فوقتاً حالات اور واقعات کے مطابق اللہ کے حکم سے آیات اور سورتوں کی شکل میں حضور ﷺ پر نازل کرتے رہے۔ گو کہ پورا ماہ رمضان
المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہوتا ہے۔تاہم اسی ماہ کی جس رات میں انسانیت کی رشد و ہدایت کیلئے قرآن مجید نازل ہوا جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔جس میں سلامتی ہی سلامتی ہے شر کا نام ونشان نہیں قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے کے فیصلے ہوتے ہیں بلاشعبہ وہ ایک معمولی رات نہیں بلکہ نہایت اہم اور مبارک رات ہے۔ جس کو خوش نصیب لوگ رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرتے ہیں۔بعض علما کرام نے تصریح کی ہے کہ شب قدر ہمیشہ کیلئے کسی ایک رات میں متعین نہیں۔ممکن ہے ایک رمضان میں کوئی رات ہو اور دوسرے رمضان میں دوسری رات ہو۔خصوصاً ستائیسویں شب پر گمان غالب ہوا ہے حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ رمضان خم ہونے میں نو دن،سات دن، پانچ دن، تین دن اور ایک دن باقی ہو یا آخری رات میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔
حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت کے مطابق حضورﷺ نے فرمایا ’’ شب قدر‘‘کو رمضان کے آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو۔ حضورﷺ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جبکہ مہینہ ختم ہونے میں نو دن، سات دن، پانچ دن باقی ہوں۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایات کے مطابق حضورﷺ نے فرمایا ’’ لیلۃ ستائیسویں یا انتیسویں رات ہے‘‘۔ قرآن مجید لوح محفوظ سے سماء دنیا پر شب قدر میں اُتارا گیا اور اسی رات میں سماء دنیاسے نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ پر اترنا شروع ہوا اس کے متعلق کچھ مضمون سورۃالدخان میں اور باقی سورۃ القدر میں موجود ہے۔شب قدر کی قدرومنزلت اتنی زیادہ ہے کہ اس رات میں نیکی کرنا ایسا ہے گویا ہزار مہینوں تک نیکی کرتا رہا۔بلکہ اس سے بھی زیادہ اس مقدس رات میں اللہ کے حکم سے روح القدوس ( جبرائیلٌ) بیشمار فرشتوں کے ہجوم میں زمین والوں کو عظیم خیر وبرکت سے مستفیض کرنے کیلئے نیچے اترتے ہیں اور شب قدر میں باطنی حیات اور روحانی خیر وبرکت کا ایک خاص نزول ہوتا ہے۔ انتظامی عالم کے متعلق جو کام اس سال میں مقدر ہیں ان کے نافذ کی تعین کیلئے فرشتے آتے ہیں اور ہر قسم کے امور خیر لے کر آسمان سے اترتے ہیں شب قدر امن وچین اور دلجمعی کی رات ہے۔اللہ کے نیک بندے اس رات کی عبادت میں عجیب وغریب طمانیت لذت اور حلاوت محسوس کرتے ہیں اور یہ اثر ہوتا ہے نزول رحمت وبرکت کا جو روح وملائکہ کے توسط سے ظہور میں آتا ہے۔بعض روایات میں آتا ہے کہ شب قدر میں جبرائیل اور فرشتے عابدین وذاکرین پر صلوۃوسلام بھیجتے ہیں اور ان کے حق میں رحمت اور سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں اور یہ سلسلہ شام سے صبح تک پوری رات جاری رہتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے مطابق حضور اکرمﷺ نے شب قدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کیلئے کھڑا رہا اس کے پیچھے تمام گناہ معاف ہوگئے۔ یعنی وہ رات اپنی فضیلت وشرف میں غیر معمولی اور بے حد حساب حیثیت کی حامل ہے اس رات میں کیا ہوا عمل اجروثواب کے اعتبار سے ہمارے اعداد دو کے پیمانوں میں تو آنے والا نہیں۔ اس رات سے متعلق بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اختلاف مطالع کی وجہ سے ہر جگہ رات کا ایک وقت میں ہونا تو ممکن نہیں جب مکہ معظمہ میں رات ہوگئی اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں دن ہوگا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس رات کے فضائل اور اس کی برکتوں سے تمام ممالک کے لوگ یکساں فیض یاب ہوں۔ جہاں رات ہوگی وہاں کے لوگ اس رات کی فضیلت کو پا سکتے ہیں اور جہاں دن ہوگا وہ اس سے محروم رہ جائیں گے اگر غور کیا جائے تو اس کی مختلف توجیہات ممکن ہیں۔ مثلاً رات کی حقیقت کیا ہے ؟ زمین کے کسی حصے کا سورج کے سامنے سے ہٹ جانا کیونکہ جب سورج کی کرنیں زمین کے اس قطعہ تک نہیں پہنچیں گی تو وہاں اندھیرا یعنی رات ہوگی اور دن کی حقیقت کیا ہے؟ کسی قطعہ زمین کا سورج کے سامنے آکر سورج کی کرنوں سے منور ہو جانا ہے۔ ابھی آپ نے پڑھا کہ رات دن ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے آتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بالکل منقطع نہیں ہوتے اس لئے یہ توجیہہ بھی اہل عمل نے کی ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کے لئے بولا جاتا ہے۔ اس لئے رمضان کی ان تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصے میں ہو اس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لئے شب قدر ہو سکتی ہے۔ اور تیسری بات جو سب سے زیادہ محکم ہے وہ یہ ہے کہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب قدر قرار پائے گی۔ اس جگہ ، اسی رات میں شب قدر کی برکات حاصل ہوں گی۔
ضیاء الحق سرحدی