Column

قومی سلامتی اجلاس سے بائیکاٹ ایک غیر سنجیدہ جماعت

 

تحریر : طارق خان ترین
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کا سیاسی سفر کئی نشیب و فراز سے گزرا ہے، مگر حالیہ برسوں میں اس کا طرزِ سیاست انتشار، بائیکاٹ، اور ریاست مخالف بیانیے کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ جو جماعت کبھی تبدیلی اور اصلاحات کی علامت سمجھی جاتی تھی، وہ اب ایک ایسی سیاسی قوت میں بدل چکی ہے جو نہ صرف قومی مکالمے سے کنارہ کش ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ بائیکاٹ کی سیاست اور غیر ضروری مزاحمت کا تسلسل اس بات کی علامت ہے کہ پی ٹی آئی قومی مسائل کے حل کے بجائے محض اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، چاہے اس کے لیے ملکی مفادات کو بھی دائو پر لگانا پڑے۔
اس جماعت کا بین الاقوامی سطح پر رویہ بھی قابلِ تشویش ہے۔ آئی ایم ایف کے دفاتر کے باہر احتجاج، غیر ملکی سربراہانِ مملکت کے دوروں کے خلاف مظاہرے، اور عالمی اجلاسوں میں خلل ڈالنے جیسے اقدامات صرف سیاسی مخالفت نہیں بلکہ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی دانستہ کوشش معلوم ہوتے ہیں۔ قومی سلامتی اجلاس کی بائیکاٹ کرنا، خصوصا ایسے وقت میں جب بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی سر چڑھ رہی ہو، یہ ایک غیر منطقی فیصلہ تھا نا صرف بلکہ ایک غیر سیاسی اور اخلاقی فیصلہ بھی تھا۔ جب کوئی جماعت ریاست کے سفارتی اور معاشی معاملات میں رخنہ ڈالنے کو اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بنا لے، تو وہ نا صرف ملکی معیشت کے لیے خطرہ بنتی ہے بلکہ دشمن قوتوں کے لیے ایک آسان مہرہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
داخلی طور پر، پی ٹی آئی کے سیاسی اتحاد بھی غیر مستحکم نظر آتے ہیں۔ حالیہ واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ جماعت اپنے اتحادیوں کے فیصلوں پر مکمل انحصار کر رہی ہے، بجائے اس کے کہ اپنی خودمختار حیثیت برقرار رکھے۔ سیاسی جماعتیں جب اپنے اصولوں پر قائم رہنے کے بجائے کمزور اتحادیوں کے رحم و کرم پر چلنے لگتی ہیں، تو ان کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ ایک ایسی جماعت جو ہر قومی معاملے میں بائیکاٹ اور احتجاج کا سہارا لے، وہ نہ تو کوئی تعمیری پالیسی دے سکتی ہے اور نہ ہی عوام کو عملی طور پر کوئی ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر غیر معمولی حد تک انحصار بھی اس کی سیاسی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔ یہ جماعت حقیقی سیاسی اقدامات کے بجائے سوشل میڈیا پر مقبولیت بڑھانے پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پروپیگنڈا نیٹ ورکس کے زیرِ اثر فیصلے کرنا اور ہر معاملے کو جذباتی نعروں کے ذریعے چلانے کی پالیسی نے پی ٹی آئی کو ایک ورچوئل سیاسی جماعت بنا دیا ہے، جو زمینی حقائق سے کٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب قیادت فیصلے کرنے میں سوشل میڈیا ٹرینڈز پر انحصار کرنے لگے، تو اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ حقیقت پسندی سے عاری ہو جاتی ہے۔
ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی شدت پسند عناصر کے خلاف واضح موقف اپنانے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (TTP)، بلوچستان لبریشن آرمی (BLA)اور دیگر ریاست مخالف عناصر کے خلاف دیگر سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سخت بیانیہ اپنایا، مگر پی ٹی آئی کی طرف سے ان تنظیموں کے خلاف ہمیشہ محتاط یا نیم دلانہ ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ یہ غیر واضح پالیسی نہ صرف جماعت کی ساکھ پر سوالیہ نشان بناتی ہے بلکہ اس کے ریاست مخالف عناصر کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے کے تاثر کو بھی تقویت دیتی ہے۔
یہ تمام عوامل اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی اب ایک اصلاحاتی جماعت نہیں رہی بلکہ ایک ایسی سیاسی تنظیم میں تبدیل ہو چکی ہے جو اپنی ناکامیوں کو دوسروں پر ڈال کر خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بائیکاٹ، احتجاج، ریاستی اداروں سے تصادم، اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے، اپنی قیادت کو حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے پر مجبور کرے، اور قومی مفاد کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ بصورتِ دیگر، مستقبل کی سیاست میں اس جماعت کا کردار صرف ایک احتجاجی گروہ تک محدود رہ جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button